قومی اتفاق رائے کی روشن مثال !

ہماری سیاست اور سیاستدانوں کا عجب وطیرہ رہاہے کہ جن اقدامات کو اپنے دور اقتدار میں پسند یدہ قرار دیا جا تا ہے، انہیں حزب مخالف میں تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگتا ہے ۔پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ( ن) نے اپنے دور اقتدار میں ترمیمی آرڈیننس سے لے کر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تک کرتے رہے ،مگرآج تحریک انصاف حکومت کے انہی اقدامات کو غیر جمہوری قرار دیا جارہا ہے۔حکومت اوراپوزیشن الیکشن کمیشن کی تقرری سے لے کر قانون سازی کے کسی مرحلے پرباہمی تعاون کے لیے تیار نہیں ہے ۔پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کے نعرے لگانے والے خود مخالفت برائے مخالفت میں بے توقیرکرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ملکی اداروں کوبہتر قانون سازی کے ذریعے مضبوط بنانے کی بجائے حرف تنقیدبنا کر کمزور کیا جارہا ہے ۔پارلیمان کو قانون سازی کی بجائے لڑائی کا اکھاڑا بنا دیا گیا ہے ،جہاں ایک دوسرے پر صرف الزامات کے تیر چلائے جاتے ہیں،اپوزیشن کو پا لیمانی اجلاس بلانے کا شکوہ رہتاہے ،مگر اجلاس کاروائی کے دوران ایک دوسرے پر الزا م تراشی کے علاوہ ملکی وعوامی مسائل کے تداک کے لیے غیر سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔حکو مت اور اپوزیشن جتنا مرضی دست گریباں رہیں ،مگر جہاں ذاتی مفادات پر حرف آنے لگے اور پر جلنے کا خطرہ نظر آئے تو باہمی مفاہمت اور اتفاق رائے کا سویا احساس جاگ اُٹھتا ہے۔
نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے ،ایک عام تاثر دیا جارہاہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کو گزشتہ کچھ عرصہ میں رونما ہونے والے اہم واقعات کے بارے میں اعتماد میں لینا چاہتے ہیں،جبکہ اس پارلیمنٹ کے اجلاس سے پہلے کابینہ نے جس طرح عجلت میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی ہے، اس کی روشنی میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اس بل کو ایوان سے منظور کروانے دیری کی روادار نہیں ہے۔وفاقی کابینہ نے فوجی قانون میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، فوجی قانون میں نئی ترامیم کے ذریعے نہ صرف تینوں مسلح افواج کے سربراہاکی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 64 برس ہوجائے گی ،بلکہ ان کی سربراہی میں تین سالہ مدت کے لیے توسیع بھی کی جا سکے گی۔ فوج کے موجودہ سربراہ کو حکومت کی جانب سے توسیع دینے پر عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 28 نومبر کو حکم جاری کیا تھا کہ یا تو اس کے لیے ملک کے فوجی قانون میں ضروری ترمیم کی جائے یا پھر نیا فوجی سربراہ مقرر کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت ریویو پٹیشن میں گئی ہوئی ہے،لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ ایک معاملہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے فوری بعد اب اس میں قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ کیا حکومت نے ایک بار پھر اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بجائے پارلیمنٹ سے فیصلہ کروانے کا عزم کیا ہے ،لیکن اس طرح عجلت میں فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کی کوشش سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو حکمرانی کے رموز سیکھنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
یہ امر واضح ہے کہ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلا س کے شرکاء تک اجلاس کے ایک نکاتی ایجنڈے سے لاعلم تھے۔ سرکار کی جانب سے ترامیم کی جو تجاویز پیش کی گئیں، اس پر کابینہ نے بلا کسی اعتراض کے اپنی مہر ثبت کردی۔کابینہ کی جانب سے منظور کی جانے والی ترامیم کو قانون بنانے کے لیے اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، چونکہ فوجی قانون میں ترمیم آرمی چیف سے متعلق ہیں، اس لیے اس ضمن میں کسی جانب سے کسی مخالفت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے ،اس کا عندیہ تمام سیاسی پارٹیوں نے اتفاق رائے سے دے دیا ہے ، توقع ہے کہ جتنی آسانی سے کابینہ کے اراکین نے منظورکردی ، اتنی ہی آسانی سے ترامیمی بل پارلیمان میں بھی منظور ہوجائے گااور فوری طور پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ مل جائے گا۔اس قانونی ترمیمی بل سے قبل بھی وزیر اعظم کا آئینی اختیار تھا کہ وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں ،مگر حکومت نے عجلت میں قبل از وقت غلط طریقہ اختیار کر کے مخالفین کو عدالت سے رجوع کرنے کا موقع فراہم کیاگیا۔سپریم کورٹ اس معاملہ پر حکومت کی جانب سے توسیع کو آئینی اختیار قرار دے کر مشکل صورت حال سے نکال سکتی تھی،مگر معزز عدلیہ نے پارلیمان کو قانون سازی کرنے کی جو راہ دکھائی ہے ،وہ اداروں کو مضبوط کرنے کی جانب حوصلہ افزاء پیش رفت ہے ۔
بلا شبہ آرمی ایکٹ کے ترمیمی مسودے پر سیاسی قوتوں کی تاریخی ہم آہنگی ایک مثبت پیش رفت ہے ،اس اقدام سے واضح ہو گیا کہ قومی اداروں کے فیصلوں کا منشا کسی صورت قو می زندگی میں روکاوٹیں پیدا کرنا نہیں ہوتا ،اگر سیاسی قوتیں ٹھان لیں اور پارلیمان کو بطور فورم درست استعمال کریں تو ایسا ممکن نہیں کہ قومی زندگی کے مشکل ترین فیصلے بھی کامل افہام وتفہیم کے ساتھ نتیجے تک نہ پہنچ سکیں ۔ہمیشہ مشکل اس وقت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب سیاسی رہنما پارلیمانی فورم کواس کی سپرٹ مطابق بروئے کار لانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ہم ماضی کو بدل تو نہیں سکتے ،مگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کرمستقبل کی جانب اپنے قومی رویوں میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں ۔آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی طرح دیگر قومی وعوامی مسائل بھی باہمی اتفاق رائے کے منتظر ہیں،ہمارے قومی رہنما حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے قومی فیصلوں میں قومی مفاد کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ،قومی زندگی میں یہ تاریخی ہم آہنگی اور آگہی پاکستانی جمہوری روایت کے لیے روشن مثال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں