پنجابی زبان اورصحافت کے ساتھ دشمنی کیوں۔۔۔؟

زبان کسی بھی خطے کی تاریخی اور ثقافتی ترجمانی کرتی ہے۔زبان سے رشتہ جتنا گہرا اور مضبوط ہوگا خطے کا فکری حوالہ بھی اتنا ہی توانا ہوگا۔دنیا میں یہی فارمولا رائج ہے کہ جن اقوام نے اپنی جڑوں کے ساتھ تعلق مضبوط رکھا اُن کی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہوا۔ یہ تعلق چونکہ فکری اور ثقافتی بنیادوں پر صدیوں پرانی گہرائی کی بات کرتا ہے اس لئے ایک ہی لہجے یا سوچ میں پنپتے خیالات نسلوں میں منتقل ہوتے اور ترقی پاتے ہیں۔یہی کلچرل ڈی این اے ہے جو انسانی جینز کا حصہ بن جاتاہے۔بالفرض آپ ہجرت کرجائیں اور دہائیوں بعد اپنی زمین سے دور نئی نسل کو جنم دیں گے تووہ بھی کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر اُس مٹی سے محبت کا اظہار ضرور کرے گی جس میں اُس کے آباء کی صدیوں پرانی ہڈیاں دفن ہوں۔ نئی تہذیب کو قبول کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا کہ چند سال ہی میں آپ کا رشتہ اس زمین سے کٹ جائے جہاں آپ کے آبا نے صدیاں گزاری ہوں۔دنیاکی ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی زبان اور ثقافت سے محبت کی ہے ۔اس محبت کا سب سے بڑا اظہار وہ رویے ہوتے ہیں جو زبان اور ثقافت کو سنبھالنے کیلئے عمل میں آتے ہیں اور یہی رویے زبان کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ تروتازہ بھی رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اسی زاویے سے ہم پنجابی کا جائزہ لیں تو یہاں ہر باب المیہ کے حاشیے میں رقم دکھائی دیتا ہے۔ انگریز سرکار کے آنے کے بعدپنجابی زبان اور پنجاب پر جو ظلم ڈھایا گیا اُس کا سب سے بڑا شکار یہاں کی ثقافت اور زبان ہی رہی ہے۔یہ خطہ چونکہ مزاحمت کی علامت تھا اس لیے یہاں کی زبان کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا۔ کمپنی سرکارنے یہ تاثر دینے کی کامیاب کوشش کی کہ پنجابی زبان جہلا کی بولی ہے۔ یہ اُجڈاورگنوار لوگ کھیت کھلیانوں میں ہل توجوت سکتے ہیں لیکن نہ تو دفتری امور انجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی علمی و فکری مباحث ان کے بس کا روگ ہے۔ یہ تصورات اُس وقت رائج کیے جا رہے تھے جب پنجابی زبان کے دامن میں وارث شاہ اور بلھے شاہ کی شعری وارداتیں تازہ تھیں ۔انگریز سرکار نے یہ پراپیگنڈا بڑی مہارت اور مکاری کے ساتھ اتنی شد و مد سے کیا کہ پنجاب کے بہت زرخیز دماغ بھی انگریزی اور فارسی زبان کا سہارا لے کر فنون لطیفہ میں آگے بڑھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام علامہ اقبال کا تھا جو مکالمہ تو پنجابی زبان میں کرتے لیکن جب شعر لکھتے یا نوبت مقالے تک پہنچتی تو اُن کی زبان فارسی یا فارسی زدہ اردو ہوتی۔
تقسیم ہند کے بعد سب سے بڑا نقصان پنجاب نے اٹھایا۔ یہاں کی ثقافت تقسیم ہوئی ، امرتسر اور لاہور الگ ہوئے ، پنجابی بولنے والوں کے ہاتھوں پنجابی قتل ہوا اور سب سے بڑھ کر پنجاب کے ثقافتی مراکز بٹ کے رہ گئے۔ فطری طور پر پنجاب کو پاکستان ہی کا حصہ ہونا چاہیے تھا،کیونکہ سکھ اور مسلمان دونوں صدیوں سے ایک دوسرے کو قبول کرتے چلے آرہے تھے۔ انگریز نے پنجاب کو کمزور بنانے کیلئے ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کر دیا۔ آج بھی پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ سرحد کے اُس پار اور اِس پار پنجابی زبان کا رسم الخط الگ الگ ہے۔ یہ سازش ہی تھی جس نے پنجابی کو شاہ مکھی اور گرو مکھی کے خانوں میں تقسیم کرکے مزید کمزور بنادیا۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ گرومکھی لکھنے والے ہم سے بہتر رہے، انہوں نے زبان کوخوب سنبھالا،ہم مغربی پنجاب والے زبان سے ویسی محبت نہیں کر پائے۔مشرقی پنجاب میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیااور روزگار کے ساتھ جوڑ کر اسے مزید محفوظ بنالیا گیا۔ وہاں پنجابی کتب اور اخبارات کی اشاعت کسی بھی دوسری زبان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کے برعکس مغربی پنجاب میں آج بھی پنجابی زبان کو اُسی نگاہ سے دیکھنے کا رواج ہے جس سے انگریز سرکار دیکھا کرتی تھی۔پنجابی کو گالی اور بے ہودگی کی علامت بنا کر دفاتر سے دور کردیا گیا ۔پنجابی زبان سے محبت کرنے والوں کی کوششوں کے باوجودماں بولی اختیاری نصاب کا حصہ تو بنی لیکن اسے لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں مڈل جبکہ سندھ اور کے پی میں مقامی زبانیں پرائمری تک لازمی ہیں۔ پنجاب جہاں ملک کی ساٹھ فیصدآبادی رہتی ہے وہاں کالازمی تعلیمی نصاب اپنی زبان ہی سے محروم ہے۔ ہمیں اردو سے محبت ہے لیکن یہ محبت پنجابی کے قتل سے مشروط نہ کی جائے۔ اردو ضرور پڑھائی جائے لیکن پنجابی کو بھی لازمی قرار دیا جائے تاکہ اس خطے کی ثقافت اور بولی اُسی طرح سے زندہ رہ سکے جس طرح ملک کے دیگر حصوں میں زبان کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔
زبان کو زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ صحافت بھی ہے جس میں پنجابی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔پنجابی صحافت کا جائزہ لیں تو تقسیم ہند کے بعد کچھ رسائل اور جرائد کی مثالیں توملتی ہیں لیکن روزوار پنجابی صحافت کی بنیاد حسین نقی صاحب نے اخبار ”سجن” کا اجرا کرکے رکھی۔ بھٹو صاحب کے دور میں اگرچہ مقامی زبانوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا تھا لیکن ”سجن” اُس سازگار ماحول میں بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پایا اور تھوڑے ہی عرصے بعد اپنی موت آپ مر گیا۔ اس کے بعد مارشل لاء کے طویل دور میں کسی نے پنجابی اخبار نکالنے کی جرأت نہ کی۔ آج سے لگ بھگ تیس سال پہلے میں نے روزوار ”بھلیکھا” نکالا اور اپنے تمام تر وسائل اس کی نذر کر دیئے۔ یہ تجربہ کاروباری حوالے سے ہرگز اچھا نہیں تھا، تعریفی کلمات تو سننے میں ملتے لیکن معاشی بدحالی کا مداوا کسی بھی سطح پر نہ ہوتا۔جہاں سندھی،پشتو اور بلوچ زبانوں میں چھپنے والے اخبارات پر بھرپور وسائل خرچ ہورہے تھے وہاں پنجابی اخبار کے لیے حکومت کی جانب سے کہیں بھی معاونت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میرے تلخ تجربے کے باوجود معتبراورعہد سازصحافی ضیاء شاہد نے بھی پنجاب سے محبت کا قرض اتارنے کے لئے ”خبراں” کا اجرا کیا۔ ضیاء شاہد بڑے صحافی ہیں، اُن کے پاس وسائل بھی تھے لیکن وہ بھی یہ بوجھ اکیلے نہیں اٹھا پائے اورمیری طرح انہیں بھی اپنا پنجابی اخبار محدود کرنا پڑا۔دم توڑتی پنجابی صحافت اور زبان کے ساتھ مسلسل ہونے والی نا انصافی پر ہم نے خوب آواز اٹھائی۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے ناصرف یہ مسائل توجہ سے سنے بلکہ حیرت کا اظہار بھی کیا کہ پنجابی صحافت کے لیے کوٹہ کیوں مقرر نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں دیگر صوبوں میں سرکاری اشتہارات کا دسیوں فیصد مقامی زبانوں کیلئے مختص ہوتا ہے یہاں پانچ فیصد پنجابی صحافت کیلئے مقرر کر دیا گیا۔ سرکاری اشتہارات کایہ کوٹہ بہت محدود تھا، لیکن حبس زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ضرور تھا۔ اس دوران پنجابی اخبارات نے ترقی کی اور ان کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری نہ رہ سکا اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے ایک بار پھر عملاً پنجابی زبان کے ساتھ دشمنی کا اظہار شروع کر دیا۔یہ پانچ فیصد کوٹہ بھی بند کردیا گیا ،پنجابی اخبارات اپنے بوجھ تلے اتنا دب گئے کہ انہیں اپنی اشاعت انتہائی محدود کرنا پڑی۔اب ایک بار پھر پنجاب میں ایسی حکومت ہے جسے ماں بولی سے محبت کا دعویٰ ہے۔بالخصوص وزیر اعلیٰ عثمان بزدار،گورنر محمد سرور اور وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان دیسی آدمی ہیں جن میں مغرب سے مرعوبیت کا احساس کمتری نہیں۔انہیں بالخصوص پنجابی صحافت کے بارے میں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے اور کم از کم وہ پانچ فیصد کوٹہ تو پنجابی اخبارات تک ضرور پہنچانا ہوگا جسے اے پی این ایس مافیا کے ڈمی اخبارات ہڑپ کر جاتے ہیں۔اس سلسلے میں برادرم ضیا شاہد سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ ایک قدم آگے بڑھیں اور پنجابی صحافت کے حقوق کی جنگ کے لیے ارباب اختیار تک یہ آواز پہنچائیں کہ تاریخ پنجاب کے ان بیٹوں کو بھی یاد رکھے گی جنہوں نے ماں بولی کا حق ادا کیا اور ان کو بھی جنہوں نے اپنی رہتل اور بولی کا حق مارا۔مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکومت زبان کو اس کا حق ضرور ادا کرے گی،خاص طور پر فیاض الحسن چوہان تو ایسے فیصلے کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں جن میں مصلحت نامی خرافات کو جوتی کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں