احساس کفالت پروگرام ۔۔۔حق بحقدار رسید

جہاں چند لوگوں کی امارت آسمان اور بہت بڑی اکثریت غربت کوکی پست ترین سطح پر پہنچ جائے تووہ معاشرے بلاشبہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ جس بستی میں کوئی ایک بھی بھوکا سوئے اللہ اس بستی کو اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے ۔ اس فرمان مبارک کی روشنی میں دیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کے مبارک دن احساس کفالت پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ جہاں تھوڑے سے لوگ امیر، باقی سب غریب ہوں، وہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ماضی میں نچلے طبقے کو نظر انداز کیا گیا۔ ایسا سسٹم چاہیے تھا کہ مستحقین کو دیانتداری سے ان کا حق ملے ۔ بلاشبہ پاکستان پراس وقت معاشی اعتبار سے ایک کڑا وقت ہے ایسے میں اس طرح کے پروگرام کا اجرا کسی کارنامے سے کم نہیں ۔ ماضی کی حکومتیں خاص طور پر دوہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ تک برسراقتدار رہنے والی دو جماعتیں ملکی معیشت کو جس حد تک پہنچا کر گئی ہیں اگر قوم کو اس کا حقیقی ادرارک ہوتا تو یقیناً دن کا چین رات کی نیند غائب ہو جاتی ۔ شکر ہے کہ پاکستان اس بدترین صورتحال سے نجات پا چکا ہے اور ہم نا دہندگی کی جس پوزیشنپر پہنچے ہوئے تھے اس سے نکل چکے ہیں مگر ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کے راستے پر چلتی اور ملک کو خطرناک معاشی صورتحال سے نکالنے کی کامیاب کوشش نہ کرتی تو پھر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ نادہندگی کیا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں قومیں کس مشکل بلکہ بدترین حالات سے دوچار ہوتی ہیں ۔اب ہم اس پروگرام یعنی احساس کفالت پروگرام کی طرف آتے ہیں جس سے ستر لاکھ غریب خواتین مستفید ہونگی ۔ اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں ستر لاکھ گھرانوں کی کفالت کی ذمہ دار مستحق خواتین میں احساس کفالت کارڈ زکی تقسیم شروع ہو گئی ہے ، دوسرا مرحلہ جس کا آغاز بتایا گیا ہے کہ اگلے پندرہ سے بیس دنوں میں ہوگاکے دوران ان خواتین کو گائے ، بھینس ، بکریاں اور مرغیاں تقسیم کی جائیں گی ، تیسرے مرحلے میں انہیں سمارٹ فون اور ان کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیئے جائیں گے ۔
یہ پروگرام ایک ایسے حساس وزیراعظم کی سوچ اور فکر کا عملی اظہار ہے جو گزشتہ تقریباً تیس سال سے ایک نامور کھلاڑی ، قومی ہیرو اور خدمت گزار کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ جس کے کریڈٹ پر کینسر ہسپتال قائم کرنے اور کامیابی سے چلانے کے کارنامہ ہے ، جس نے میانوالی جیسے پسماندہ ضلع کے دیہی علاقے میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کر کے غریب بچوں کیلئے کوالٹی ایجوکیشن انکی دہلیز پر ممکن بنائی ہے ۔ اس کے باوجود کچھ بد طینت ار خوفزدہ لوگوں کی طرف سے اسے تین دہائیوں سے مسلسل گھٹیا ترین کردار کشی کا سامنا ہے ۔مگر داد دیجئے کہ ہمت نہ ہارنے اور نہ گھبرانے والے اس شخص نے معاشی اعتبار سے مشکل ترین وقت میں اب تک جتنے بھی فیصلے کئے ہیں انکا محورو مرکز صرف غریب لوگ ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ س کے بس میں ہوتا تو وہ شائد حلف اٹھاتے ہی جس پروگرام کا افتتاح کرنا پسند کرتا وہ اسی نوعیت کا ہوتا ۔ تاہم کسی بھی پروگرام کی کامیابی کے لئے ایک بہترین اور مضبوط سسٹم درکار ہوتا ہے ۔ اس سسٹم کی تشکیل کیلئے پرعم اور ایمانداری کے وصف سے مزین افراد چاہئے ہوتے ہیں ۔ یہ سسٹم بنانا اسلئے ضروری ہوتا ہے کہ جن لوگوں کیلئے پروگرام بن رہاہے اس کے فوائد ان تک حقیقی معنوں میں اور پوری دیانت کے ساتھ منتقل ہوں ۔وزیراعظم کی براہ راست دلچسپی اور نگرانی میں تحریک پاکستان کے انتہائی محترم قائدین میں سے ایک سردار عبدالرب نشتر کی پوتی محترمہ ثانیہ نشتر نے جس محنت کیساتھ یہ سسٹم بنایا ہے اس کے تحت مستحق خواتین کے بینک اکاؤنٹ کھلوا کر اے ٹی ایم کیطرز پرکفالت کارڈ بنائے گئے ہیں ۔ ان کارڈوں کی مدد سے وہ ملنے والی رقم نہ صرف خود نکال سکیں گی بلکہ یہی کارڈ یوٹیلیٹی سٹورز سے گھرانے کی ضرورت کے مطابق اشیا کی خریداری میں بھی استعمال ہو سکیں گے ۔
اسی طرح دوسرے مرحلے میں خواتین کو جو جانور دیئے جائیں گے وہ بھی ان گھرانوں کی آمدنی کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ ان گھرانوں کے بچوں کی غذائی ضروریات کو بہتر بنانے کا وسیلہ بنیں گے جبکہ سمارٹ فون کی فراہمی اور اس کے مفید استعمال کی تربیت ان خواتین اور ان کے بچوں کو گھر کے اندر رہتے ہوئے جدید خطوط پرکاروباری سرگرمیاں کرنے کے قابل بنائے گی ۔ ان گھرانوں کیلئے تعلیمی وظائف کی فراہمی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس فیصلے پر عمل درآمد سے غریب ترین والدین کے بچے بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہونگے اورملک کی خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو گا ۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے حوالے سے حکومت نے ایک اور مستحسن فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کفالت کارڈ کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے ۔ ماضی میں ایک جماعت نے اس طرح کے کارڈ پر اپنی جماعت کی رہنما کی تصویر لگا رکھی تھی جس نے اس پروگرام کو سیاسی رنگ دے دیا تھا ، یہی وجہ ہے کہ جب اس حکومت نے اس کے ڈیٹا کا آڈٹ کیا تو پتہ چلا کہ اس میں کم از کم آٹھ لاکھ افراد ایسے شامل تھے جو کسی بھی لحاظ سے مستحق نہ تھے تاہم سالانہ اربوں روپے وصول کر کے غریبوں کا حق مار رہے ۔ تصویر بدلنے اور آڈٹ کر کے فراڈیوں کو باہر نکالنے کے اس فیصلے سے اب یہ حقیقی معنوں میں ایک ق غیر سیاسی ومی پروگرام بن گیا ہے اور اس پر لگی سیاسی چھاپ ختم ہو گئی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ سیاسی شخصیات سے منسوب دیگر پروگرام اگر کوئی ہوں اور عمارات پرسے بھی یہ چھاپ ختم کرے ۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ حکومت ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کی اپنی مبارک خواہش کی پاسداری کرے گی اور اس پروگرام کو ہر قسم کے فراڈ ، دھوکہ دہی اور سیاسی اثرو رسوخ سے پاک رکھتے ہوئے بلا تفریق غریب عوام کی خدمت کا ذریعہ بننا یقینی بنائے گی ۔ وزیراعظم کی اس بات میں مکمل سچائی ہے کہ کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا جس میں تھوڑے لوگ امیر اور بہت سے غریب ہوں۔انشا اللہ نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے کی یہ کوشش پاکستان کو ہر اعتبار سے دنیا کا بہتر ملک بنانے کی راہ آسان بنائے گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں