کرونیائی دنیااورمہنگائی—–ملک اے لطیف کھوکھرایڈووکیٹ

اتفاق کہہ لیں یا حقیقت، آجکل میرا ہر کالم کرونا سے ہی شروع ہوتا ہے اور چونکہ اس۔۔ کرونیائ ماحول۔۔ میں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے لمبی لمبی نیند لینے کے باوجود وقت گذرتا ہی نہیں اسی لئے۔۔وقت۔۔جو عام زندگی کی شاید سب سے انمول چیز ہے ان بدلتے حالات میں آجکل اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہے کہ ہر وقت ہم پر بھی کچھ ۔۔کرو, نا (do something) کا بھوت سوار رہتا ہے اور ہم چونکہ لکھنے لکھانے والے۔۔۔ ہتھوڑے۔۔ تو چلا نہیں سکتے، اسی لئے ذہن میں لمحہ بہ لمحہ بنتی بگڑتی بدلتی دنیا کی صورتحال پر اپنا قلم چلانا ہی سب سے آسان کام سمجھتے ہیں اسی لئے آجکل کالم پہ کالم لکھا جا رہا اور بھلا ہو اخبار والوں کا کہ وہ بھی کالم نما ہمارا ذہنی بوجھ آگے منتقل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ جیسے پہلے عرض کیا ہے، وقت بھی وافر مقدار میں موجود ہے اور حالات و واقعات میں تغیر و تبدل بھی بہت تیزی سے رونما ہو رہا ہے اسی لئے ۔۔عنوانات۔۔ بھی ایک سے بڑھ کر ایک جنم لیتے ہیں، آجکل واقعی ایک نئ دنیا ہے، موت بھی سامنے نظر آ رہی ہے اور ڈر بھی نہیں لگ رہا، سچ ہے اتنی بڑی تعداد میں روزانہ اموات کی خبروں نے دراصل عام آدمی کے دل سے موت کا خوف ہی نکال دیا ہے۔ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں،،،، اس ۔۔کرونیائ دنیا۔۔ میں آجکل وہ وہ عجوبے رونما ہو رہے ہیں جو انسان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، تیل ہی کی مثال لے لیں، دنیا کے سب سے بڑے معاشی ہتھیار۔ بلیک گولڈ۔۔ کا آجکل کیا حال ہو چکا ہے۔ تیلی ( تیل بیچنے والے) “تیل لو بھئی مفت تیل۔۔ ساتھ پیسے بھی لے لو ” کی صدائیں لگا رہا ہے پھر بھی اسکی طرف کوئی کان ہی نہیں دھرتا، کوئی خریدار ہی نہیں۔ اتنی قیمتی چیز کی اتنی رسوائی میری زندگی کے شاید ان چند نا قابل فراموش بلکہ معیرالعقول واقعیات میں سے ایک ہو گا جو ساری زندگی میں نہ بھول سکوں گا۔۔ محترم قارئین:– یہ حقیقت ہے کہ تیل بری طرح پٹ چکا ہے، تیل تو ہمارے ہاں سابقہ دور حکومت میں آج سے بھی سستا تھا اور یہ آج بھی کافی حد تک سستا ہو گیا ہے اور ۔۔وزیراعظم۔۔ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں حالیہ ردوبدل کے بعد تیل کا بھائو پورے برصغیر سے کم ہے، بات درست بھی مان لی جائے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے کھاتے میں اسکا کتنا فائدہ آیا؟؟؟ اس ردوبدل سے کتنا فائدہ ملنا ہے اس شخص کو جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے، جسکے پاس گاڑی ہے نہ موٹر سائیکل، شاید صرف سائیکل یا وہ پیدل ہے۔ اسکو ان قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے کیا غرض ہے؟؟؟۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ عام بازار عام مارکیٹ کی صورتحال کیا ہے؟؟؟۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں رمضان کے مہینے میں بھی فروٹ ۔۔دوبئ والے۔۔ ریٹ پر مل رہا ہے، سیب تو لاکھوں لوگوں نے خریدنا تو دور کی بات اسکی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے، کیلا اپنے ملک کی پیداوار، 150،200 روپے درجن، سبزیاں جو 30۔40 روپے کلو ہونی چاہیے وہ 80۔100 روپے سے کم نہیں، بڑے اسٹورز پر تو کسی کو قیمت پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی، چھوٹے چھابڑی والے دوکاندار جن کے سب سے بڑے خیر خواہ عمران خان خود ہیں وہ بھی خربوز۔۔ تربوز جیسے عام سے پھلوں پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نظر آتے ہیں۔ اور کسی سے ڈرتے بھی نہیں، نہ کرایہ نہ بجلی کا بل، ڈنکے کی چوٹ پر سرکاری سڑکوں پر اپنے اسٹال لگا کر بھی مہنگائی کا بازار گرم کئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں ڈیزل پیٹرول کے نرخ 40 روپے سے ذیادہ گرے ہیں مگر مجال ہے ٹیکسی والوں کا جو عوام کو ایک روپے کا فائدہ دے دیں، راولپنڈی میں اکثر علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے اور۔۔۔ بے لگام ٹینکر مافیا۔۔۔ اپنی منہ مانگی قیمتیں اور اپنے من پسند ریٹوں پر پانی بیچ رہا ہے، سڑکیں سب سے ذیادہ یہ ادھیڑتے ہیں ۔ پانی کے پمپوں والوں نے بھی۔۔۔ بھرائ۔۔ کے نام پر لٹ مچائ ہوئ ہے،،، چند قدم پر سرکار کے دفاتر ہیں لیکن پوچھنے والا کوئ نہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات میں جب بھی کمی ہوتی ہیں، موبل آئل کا ریٹ اور اسی طرح کی لبریکینٹس کی قیمتیں کبھی کم نہیں ہوتیں،، بھئی انہیں کون پوچھے گا اگر عوام پوچھیں تو دوکانوں پر لڑائی کا خطرہ رہتا ہے، حکام بے خبر اور تاجر بے لگام، کسی سے نہیں ڈرتے، اپنی اپنی یونینوں سے ڈراتے اور بلیک میل کرتے ہیں ۔۔ ہاں:– ایک بات پر آجکل پنجاب حکومت کو داد ضرور دینی پڑے گی، پریوینشن آف ہورڈنگ آرڈیننس 2020 کا خوب اطلاق کیا جا رہا ہے، پورے پینجاب میں انتظامیہ مکمل حرکت میں آچکی ہے اور گندم کی فصل کے آتے ہی ذخیرہ اندازوں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اور خبروں کے مطابق روزانہ لاکھوں ٹن ذخیرہ شدہ اجناس کو قبضے میں لیا جا کر ناجائز منافع خوروں پر بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں اور برآمدہ مال کو سرکاری ریٹ پر فروخت کیا جا رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگر پنجاب حکومت میں گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ جیسی یہ روح یا سوچ اگر صرف چھ ماہ ہی جاری رہی تو یہاں کبھی مہنگائ ہو گی اور نہ یہ ناجائز منافع خور۔

اپنا تبصرہ بھیجیں