قلم کی فریاد ———– محمد بلال عباسی

کافی دنوں کے بعد لکھنے لگا ہوں میری قلم کچھ ایسے ہی رک گئی تھی جیسے لوگ مکمل لاک ڈاؤن میں دنیا کو رکا ہوا محسوس کر رہے تھے میری قلم میرے سامنے آئی اور کہنے لگی خدارا مجھے یوں بے سہارا مت چھوڑو حالات جیسے بھی ہوں مجھے یوں اکیلا مت چھوڑو مجھے تھامے رکھو جب تک دنیا میں انقلاب برپا نہیں ہوجاتا اس دنیا کی رکنے کی وجہ سے بےامید مت ہو شاید یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا کہ دنیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے رکی ہوئی ہے اور میری قلم کو بھی رک جانا چاہیے لیکن جب میں نے قلم کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکتے دیکھے،اس کی آواز سے سسکیاں سنی ، ٹانگوں کو کانپتے ہوئے دیکھا، ایک ہاتھ سے اپاہج دوسرے ہاتھ سے گرد آلود چہرے کو پونچھے ہوئے دیکھا۔ جب گرد آلود چہرے سے آنسو پونچھے گئے تو چہرے سے ایک چمکتی ہوئی جلد سامنے آئی اس کو دیکھتے ہی میں پانچ قدم خوف سے پیچھے ہٹ گیا جیسے میری بہن ،بھائی،بیٹی،بیٹا خون یا دودھ کے رشتے کی چمکتی ہوئی کلی رونما ہوئی ہو آپ یہ پڑھ کر حیران ہو رہے ہوں گے آخر کون سی قلم ہے جس میں ساری انسان جیسی خوبیاں ہیں حقیقت یہ ہے کہ میں اسلام آباد کے ایک شاپنگ مال سے عید کی خریداری کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ایک اپاہج بچی آگئی اور مجھ سے گڑ گڑا کر امداد مانگنے لگی بھائی آگے عید ہے خدارا پہننے کو کپڑے نہیں کھانے کو کھانا نہیں کچھ مدد کر دیجیے تب میری قلم تڑپ اٹھی اور میں نے اس بچی کو اپنی قلم سے تشبیہ دے دیا میں نے حسب توفیق اس بچی کی مدد کی اور اور اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے آگے چل پڑا اور میری سوچ سمارٹ لاک ڈاؤن سے پہلے کے دنوں پر مجھے سوچنے پہ مجبور کرنے لگی اور یہ جملہ میرے دماغ میں گردش کرنے لگا ہم کرونا سے نہیں بھوک سے مر جائیں گے۔ ہمیں بھوک سے مرنے سے بچنے کے لئے بھی نرمی کر دی گئی اس نرمی کو دیکھتے ہی کروڑوں لوگوں نے بازاروں کا رخ کرلیا لیکن یاد رکھیے آپ کے معاشرے میں آج بھی لاکھوں لوگ ایسے موجود ہیں جو یقیناً بھوک سے مر سکتے ہیں عید کے دن قریب میں خدارا اس خوشی میں غرباء کا اپنے خون اور دودھ کے رشتے کی طرح خیال رکھیں اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں