وسیم اکرم پلس کا نو بال——— تحریر ملک اے لطیف کھوکھر ایڈووکیٹ

کرکٹ کے سخت ترین میچ میں جب کہ قومی ٹیم بلکہ پورے ملک کی بقاء ہی داوء پر لگی ہو ایک تجربہ کار کپتان جب تمام آزمودہ ۔۔اوپنرز۔۔  کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا ۔۔ بارہویں کھلاڑی۔۔ کو  میدان میں اتارتا ہے تو پورا ۔۔کراوڈ۔۔ دم بخود رہ جاتا ہے، اشاروں کنایوں میں جب کوئی پوچھنے کی کو شش کرتا ہے تو اس ۔۔فالتو  پلیئر۔۔ کو سیدھا ۔۔وسیم اکرم پلس۔۔ کے خطاب سے نواز کر حاسدوں کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔ میچ شروع ہوتا ہے، لیکن ٹاس جیتنے کے باوجود جب کہ سب کو معلوم کہ یہ ایک بہترین ۔۔بیٹنگ پچ۔۔ ہے، لیکن  کپتان  خلاف توقع ۔۔باولنگ۔۔ کا فیصلہ کرتا ہے اور اوپر سے پہلے پانچوں اہم ترین اوورز اسی ۔پلس پلس۔ کو دے دئے جاتے ہیں تو شائقین پھر سے دانتوں میں انگلیاں دبائے سوچتے ہیں کہ یار بڑا ہی شاطر اور سیانہ  کپتان ہے، یقینا کوئی بڑی چال چل رہا ہو گا اور پھر اپنی نظریں بال۔ ٹو۔ بال مرکوز رکھتے ہیں، پھر کیا ہوتا ہے،، الٹی سیدھی ۔۔گیند باری۔۔ شروع ہو جاتی ہے اور ادھر سے بھی نپی تلی۔۔ بلے بازی۔۔ سے چوکے چھکے لگنا  شروع ہو جاتے ہیں، مخالف ٹیم جس کو میدان میں اترتے ہی اپنی ہار یقینی نظر آ  رہی ہوتی ہے ، اس عجیب و غریب سلیکشن پر ان میں  جیسے جان  سی پڑ گئی ہو اور وہ ہر بال پر خوب تگڑے ہو کر کھیلنے لگتے ہیں اور ایسی شدید گولہ باری کرتے ہیں کہ دوسرے ہی اوور کے اندر اندر اس غیر متوقع۔۔ بے ترتیب باولنگ۔۔ سے فائدہ اٹھا کر میچ کا پانسہ پلٹنے کے انداز  میں پہنچ جاتے ہیں،  لیکن یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے کہ میچ  کی شروعات بالکل ٹھیک  سے نہیں ہوئی،  کپتان اپنی ضد سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔   حیلے بہانوں سے اردگرد کھلاڑیوں نے پھر سے اپنے کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ، جسے اپنی کارکردگی پر بڑا ہی ناز تھا اور جو پیروں فقیروں کے بھی بہت ماننے۔ چاہنے والے تھے، پھر بھی اس ۔۔ریلو کٹے۔۔ سے ہی کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں   یا جیسے ۔۔مرشد۔۔ نے انہیں یقین دلا دیا ہو کہ ،بچہ گھبرانا نہیں، یہ ہماری دعا سے نا صرف وسیم اکرم پلس ثابت ہو گا بلکہ اکیلا بھارتی انیل کملے کی طرح ساری ٹیم کو آوٹ کر کے دکھائے گا،

 جیسے کسی شاعر نے اس موقع پر کہا ہو:–

        گل سے لپٹی ہوئی  تتلی کو گرا کر            دیکھو۔۔

        آندھیوں تم نے درختوں کو گرایا ہو          گا۔  

کپتان کو جیسے یقین بلکہ یقین محکم ہو کہ:–

      وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے         دے۔۔

     مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے           نکلے گا۔

تحریک انصاف ایک نیا پاکستان بنانے آئی تھی، یقینا کچھ اچھے کام کئے اور کافی حد تک عوام اس بات سے مطمئن بھی ہیں کہ ٹیم بالکل نئی نویلی ہے،  کارکردگی گو توقعات سے بہت کم ہے  لیکن اس کپتان کی موجودگی میں یہ کبھی۔۔ میچ فکسنگ۔۔ نہیں کریگی، سجن دشمن یہی کہتے رہے، اور عوام نے بارہویں کھلاڑی کو بھی برداشت کر لیا کیونکہ اسے اتنا مظلوم بنا کر پیش کیا گیا جیسے یہ بے چارہ لالٹین کی روشنی میں پلا بڑھا ہو کیونکہ بقول  کپتان  ۔۔عثمان بوزدار۔۔  نہایت ہی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں جہاں بجلی تک موجود نہیں، ہم نے اعتماد کیا کہ یہ سادہ مرادہ بندہ پوری نیک نیتی اور ایمانداری سے اپنے ڈیوٹی سر انجام دے گا، لیکن یہ الگ بات ہے کہ انکے والد صاحب بھی سالوں ممبر اسمبلی رہے جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جو ممبر اپنے علاقے میں بجلی نہیں لگوا سکا اسنے آگے کونسے میدان فتح کر لینے ہیں۔ لیکن اس سادے مراد نے  کھیل کے دوسرے ہی اوور میں پر پرزے نکالنے شروع کر دئے اور ” اک بزداری سب پہ بھاری” کی طرح  پارٹی منشور اور اپنے کپتان کی عظیم روایات کو صریحا  نظر انداز کرتے ہوئے  اپنے آبائی شہر ۔۔ڈی جی خان۔۔ میں دو چار روز قبل اربوں روپے کی لاگت سے ۔سردار فتح محمد خان  بوزدار انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔ کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ گو جہاں یہ ایک اچھا بال پھینکا گیا، ہسپتال بنانا اہم ترین اور اچھے کاموں میں شمار ہوتا ہے،  لیکن اگر  ماضی کے حکمرانوں کی روایات کو دیکھا جائے تو یہ سیدھا سیدھا ۔۔ نو بال۔۔ ہے۔ جسپر اب خبروں اور تبصروں کے چھکے چوکے  لگنا شروع ہو چکے ہیں۔     

 اطلاعات کے مطابق اس۔۔ دل۔۔ کے ہسپتال کا نام جناب نے اپنے ۔۔ابا حضور۔۔ کے نام پر رکھا ہے جب کہ ابھی ہم بے شمار اور لا تعداد  “بے نظیروں ” اور “شریف نامی” سرکاری عمارات اور اداروں سے پوری طرح جان  بھی چھڑا نہ پائے تھے کہ اب  ایک نئی پیشکش ۔۔بوزدار۔۔ مارکیٹ میں آ گیا ہے۔   جناب، اپنے ۔۔بابا جی۔۔ کے نام پر اگر آپ نے ہسپتال اپنی ۔۔گرہ خود۔۔ سے بنانے کا اعلان کیا ہے تو اس سے بڑی والدین کی خدمت اور فرمانبرداری کیا ہو گی لیکن اگر آپ نے ہمارے ہی پیسے سے  یعنی قومی خزانے سے اپنے والد صاحب کی نیک نامی کی کوشش کی ہے تو جناب یہ ذاتی تشہیر نہیں تو پھر اور کیا ہے، آپ اور سابقہ خود پرستوں میں اب کیا فرق رہ گیا ہے، عوام نے آپ کو اسی تبدیلی کیلئے چنا تھا کہ آپ اپنے ہی ڈھول پیٹتے رہیں اور عوام آپ کے سامنے ناچتی رہے؟؟؟  آپ کے ۔۔ابا حضور۔۔ کو کون نہیں جانتا کہ جن کے آپ فرزند ارجمند 12 کروڑ آبادی والے صوبہ پنجاب کے خیر سے۔۔کلے چیف منسٹر۔۔ ہیں لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ اس سیٹ پر آپ نے کب تک رہنا ہے؟؟؟ کیا آپ کو معلوم ہے حکومت جاتے ہی ہر  آنے والی ۔۔نئی سرکار۔۔ سب سے پہلے کیا کام کرتی ہی، جناب وہ اس جیسی ۔خود ساختہ اور خود پرستانہ۔۔ ذاتی نمود و نمائش کی تختیاں ہی سب سے پہلے  اکھاڑتے اور اٹھا کر باہر پھینکواتے  ہیں اور بچتا ہے تو صرف  ایک ۔۔کتبہ۔ اور وہ بھی قبر والا۔

 سردار صاحب آپ اس اعتماد کا سوچیں جو کپتان نے آپ پر کیا اور عوام نے جو ہر عوامی میچ کی سب سے بڑی ۔۔امپائر۔۔ ہوتی ہے، ایک ایک بال ایک ایک قدم کو ناپتی تولتی ہے، جس نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو برداشت کیا۔ قوم آپ کو کبھی اجازت نہیں دے گی کہ آپ قومی خزانے کا اپنی ذاتی تشہیر کا اس طرح بے دریغ استعمال کریں ۔

اور کپتان صاحب:- 

 ہمیں ابھی بھی آپ پر پورا بھروسہ اور یقین  ہے کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ سب نیک نیتی اور ایمانداری سے کر رہے ہیں لیکن آپ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر  اب بھی وقت ہے کہ ٹھیک ٹھیک فیصلے کریں،  خالی۔۔چھو منتروں۔۔ اور معجزات  پر نہ رہیں، مخالف ٹیم کمزور ضرور ہے لیکن یہ ہارنے جیتنے کے سب گر سب راز اچھی طرح جانتے ہیں، کیوں آپ کی موجودگی میں آٹے، چینی، دوائیوں،  اور ذاتی نمود و نمائش کے نو بال پر نو بال کروائے جا رہے، میچ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور اپنی بے جا ضد میں کہیں یہ نہ ہو کہ آپ ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں اور فاتح ٹیم  کوئی اور قرار پائے۔   

  

اپنا تبصرہ بھیجیں