خونخوار کتوں اور بدترین ہتھیاروں سے استقبال ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

امریکا میں نسل پرستی کے واقعے میں ایک مرتبہ پھر سیاہ فام کو تشدد کا نشانہ کر قتل کئے جانے کے بعد 12سے زایدریاستوں میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا۔ سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ، پولیس سے یہ منتیں کرتے نظر آرہا ہے کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے، وہ سانس نہیں لے سکتا، لیکن پولیس افس ٹس سے مس نہیں ہوا۔اس اہلکار نے 44برس کے سیاہ فام شہری کی گردن پر کئی منٹ تک گھٹنے کو دبائے رکھا۔امریکی راست منی سوٹا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد زبردست احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور شدید ہنگامے پھوٹ پڑے۔ لاس اینجلس، فلاڈلفیا، کینکٹی کٹ،لوئی ول اور اٹلانٹا سمیت کئی ریاستوں میں تادم تحریر کرفیو لگادیا گیا۔
یورپ و امریکا میں نسل پرستی کا عفریت نیا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نسل پرستی کے جذبات ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ حقوق کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کمزور طبقہ احتجاج کرتا ہے تو بزور طاقت اُس کی آواز کو دبا نے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے حالات موافق ہونے کے بجائے مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ و جدید تہذیب کی نام نہاد ممالک میں سیاہ فاموں کے خلاف سفید فام افراد کی نفرت کی کئی وجوہ ہوں گی، امریکا پر بتدریج سفید فاموں نے غلبہ حاصل کرکے سیاہ فاموں کو اقلیت میں تبدیل ہی نہیں کیا بلکہ ایسی پالیسیاں بھی بنائیں جس کے باعث سیاہ فام، ترقی کے اُن ثمرات سے مستفید نہیں ہوسکے، جو ان کا بنیادی حق ہے۔برطانیہ اور امریکا سمیت یورپ کے کئی ممالک میں سیاہ و سفید فام کی نسل پرستی میں منافرت کے عروج کا بنیادی سبب ریاست کو قرار دیا جاتا ہے۔ جب تک ریاست اپنی غیر جانبداری پالیسی کے تحت تمام طبقات کو مساوی حقوق نہیں دے گی تو وہاں نسل پرستی سمیت دیگر طبقاتی تفریق و نفرتوں کا پیدا ہوجانا ایک فطری اَمر بن جاتا ہے۔تیسری دنیا کی عوام کے نزدیک امریکا، برطانیہ و یورپی ممالک انسانیت و روا داری کا استعارہ ہیں، لیکن پس منظر میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہاں نسل پرستی ہو یا مذہب کی بنیاد پر طبقاتی معتصبانہ سوچ، بہ اتم پائی جاتی ہے۔ جدید تعلیم و مراعات اُن کے اذہان کو تبدیل اس لئے نہیں کرسکے کیونکہ نسل پرستی، ان کی سیاست و حاکمیت کے لئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہزاروں افراد کا مشتعل ہونا، املاک کو آگ لگانا اور سیکورٹی فورسز سے ٹکراؤ، اس اَمر کی غماز ہے کہ امریکی معاشرہ میں تبدیلی کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کی اشتعال انگیزیوں و نفسیاتی مسائل کے اثرات دنیا کے دیگر کمزور ممالک پر پڑتے ہیں۔ کمزور پر طاقت و جبر کا ایسا اظہار صرف کسی قوم کی نمائندگی نہیں کرتا، بلکہ ان خدشات میں اضافہ کرتا ہے کہ فرسٹریشن کی شکار ایسی قوم کے افراد جب طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں تو پھر امریکا میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں طاقت ور ممالک کے فروعی مفادات ہوتے ہیں، وہاں اس کے مضر نتائج کا شکار ہونے والوں کی بڑی تعداد سامنے آتی ہے۔
امریکا، انسانی حقوق کے حوالے سے کیا کردار ادا کرتا ہے، یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں، امریکا کا دوہرا معیار عموماََ دیگر طبقات کے لئے پریشانی و تکالیف کا سبب بنا ہے۔ ان حالات میں کہ امریکا، طاقت کے زعم میں کبھی کسی ملک پر مذہبی آزادی کے خلاف ورزیوں کے نام پر پابندی عاید کرتا ہے تو دوسری جانب تجارتی مفادات کے لئے ایسے انتہا پسندوں کی حمایت بھی کرتا ہے جو کمزور طبقے کو کچل کر اُن کی آزادی سلب کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے نظریئے میں اُس کی سرزمین میں طبقاتی کشکمش میں نسل پرستی بھیانک نہیں ہے، شاید امریکا مانتاہے کہ اسکولوں، نائٹ کلبوں اور روڈ پر کھڑے شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کرنے والے انتہا پسند نہیں، بلکہ نفسیاتی مریض ہیں، تو اس نکتے کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ ماننے میں تامل نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا کی پالیسیوں نے دنیا بھر میں امن کا توازن ہی نہیں بگاڑا، بلکہ اپنے عوام کو بھی نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے، جہاں ایک پولیس اہلکار کسی سیاہ فا م کا نہیں بلکہ ایک انسانیت کی گردن پر اپنی طاقت کا غرور ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس سرزمین میں اعلیٰ و برتر قوم کا فردہے۔ یہ غلط فہمی و برتری فوبیا دراصل معاشرتی انحطاط پزیری کی بدترین شکل ہے۔
طاقت کے غلط استعمال کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ مناظر قریباََ روزانہ ہی رپورٹ ہوتے ہیں، کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی لسانیت کے نام پر، قوم پرستی تو کبھی اشرافیہ کی شکل میں، طاقت کا منبع خود کو سمجھنے کی نفسیاتی بیماری نے طبقاتی توازن کو نقصان پہنچایا۔ امریکا میں مسئلہ صر ف یہ نہیں ہے کہ وہاں نسل پرستی کا رجحان خطرناک حد تک ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نسل پرستی کا یہ رجحان وہائٹ ہاؤس سے شروع ہوتا ہے اور پینٹاگون سے دنیا بھر میں مسلط کیا جاتا ہے۔اس نسل پرستی میں مذہبی جنونیت آمیزش سے لاکھوں انسانوں کو ہلاک کئے جانے تک، امریکی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جارج فلائیڈ کا پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ اس سے قبل متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں، یہاں قابل غور اَمر یہ ہے کہ سپرپاور کی حکمرانی میں انسانیت کے لئے کوئی جگہ موجود ہے یا نہیں۔امریکا دنیا بھر کے لئے پالیسیاں بناتا پھرتا ہے، لیکن نسل پرستی کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہے، کیا سمجھا جائے کہ امریکی نظام تعلیم نے نسل پرستی کی آبیاری نہیں کی۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھیں کہ صرف ایک سیاہ فام صدر کے آنے سے بھی امریکی معاشرہ اس لئے تبدیل نہیں ہوسکا کیونکہ اُس صدر کی ڈوریاں بھی امریکن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں تھی، وہ چاہتے ہوئے بھی نسل پرستی کی اُس جڑ کو ختم کرنے میں ناکام رہا جو امریکی معاشرے کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔
طاقت کا ناجائز استعمال کسی بھی نسل، مذہب، طبقے و گروہ پر ہو قابل مذمت ہے۔ اس کی کسی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی، کسی بھی ریاست میں طاقت کے غلط استعمال کی روش قوم کی اجتماعی طاقت کو کمزور و کھوکھلی کردیتی ہے۔ واقعہ سات سمندر پار ہی کیوں نہ ہوا ہو، لیکن اس کے اثرات و جوہات پر غور کرنے سے با آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ طبقاتی تفریق کسی بھی معاشرے، مملکت اور ریاست کے لئے زہر قاتل ہے۔ احتجاجی مظاہرین کی وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی دھمکی پر صدر ٹرمپ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”انتہائی شیطان خونخوار کتوں اور جدید و انتہائی بدترین ہتھیاروں سے لیس اہلکار استقبال کرتے“۔ہر ریاست کو اس سوچ کا خاتمہ کرکے برابری کے حقوق دینے پر غور کی زیادہ ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں