اردو ہے جس کا نام—-محمد حارث خان یوسفزئی

تحریر: محمد حارث خان یوسفزئی

“اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ،
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے.”
اردو کا نام سنتے ہی باذوق ارواح کے ذہنوں میں الفاظ کے لشکر آ جاتے ہیں، اور کیوں نہ آئے کہ لفظ اردو کے معنی ہی لشکر کے ہیں. معزز قارئین ‘اردو’ درحقیقت خود ترک زبان کا لفظ ‘اوردو’ ہے جس کے معنی جنگی پہلو سے ‘لشکر’ کے ہیں، چونکہ لشکر میں ہر طرح کا فرد یعنی سپاہی، جرنیل، خدمت گار اور بھی دیگر شعبہ جات کے افراد شامل ہوتے ہیں، اسی طرح اس زبان نے بھی دنیا کی معروف زبانوں عربی، فارسی، سنسکرت، سندھی وغیرہ کے مختلف الفاظ کو قرض حسنہ کے طور پر لیا اور ایک مکمل سماجی رابطے کی زبان بنا ڈالا.
“سلیقے سے ہواوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں،
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں.”
میری تحقیق کے مطابق اردو کی ہزاروں خوبیوں میں سے ایک بے مثل خوبی جو اسکو کرہ ارض پر بولی جانے والی تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اردو زبان میں ادب کا پہلو ہے، جو کسی زبان میں نہیں پایا جاتا. ماضی کے جھروکے میں جائے تو ادبی اردو کو ‘ریختہ’ کے نام سے پکارا جاتا تھا. اردو زبان میں ادب کا لحاظ خاص طور پر رکھا گیا ہے اور ادب کا استعمال بھی ہر جی کے بس کا روگ نہیں، شاید اسی لیے داغ دہلوی نے کہا تھا؛
“نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو،
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے.”
دوستوں آپ خود ملاحظہ فرمائے کہ دیگر زبانوں میں کسی کو مخاطب کرنا ہو تو اسکا صیغہ ایک جیسا ہوگا، جیسے انگریزی میں کسی بڑے یا چھوٹے، استاد یا شاگرد، باپ یا بیٹا کسی کو بھی مخاطب کرنا ہو تو لفظ ‘YOU’ کا استعمال ہوتا ہے، جبکہ اردو میں یہی ‘YOU’ اگر کسی اپنے سے زیادہ احترام کی شخصیت کے لیے ہو تو ‘آپ’ بن جاتا ہے، کبھی بے تکلفی کا عنصر ہو تو ‘تم’ بن جاتا ہے اور کبھی کوئی ادب سے آوازر کروانا چاہے تو ‘تو’ بن جاتا ہے. اسی طرح اور بھی کئی الفاظ ہیں، جو اسی نوعیت کے ہیں.
“فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے،
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے.”
اردو میں ایک ایسی خاصیت بھی ہے جو اسکو معجزے کا روپ دے دیتی ہے، وہ یہ کہ اردو زبان پر عبور رکھنے والا شخص دنیا کی ہر زبان کو اس کے علاقے کے لہجے کے مطابق ادا کر سکتا ہے. مثال کے طور پر عرب والوں کو ‘چ’ ‘پ’ ‘گ’ والی بولی بولنے میں دشواری ہوتی ہے، انگریز کو ‘ت’ ‘ڑ’ ‘خ’ بولنا مشکل ہوتا ہے، پختون کو ‘ف’ بولنے میں دکت محسوس ہوتی ہے. اسی طرح ہر علاقے کا خاص لہجہ ہے. لیکن اردو کا یہ کمال ہے کہ اس زبان کو جاننے والا ہر لہجے کو بخوبی ادا کر سکتا ہے، چاہے چین کا ‘چ’ ہو یا روس کا ‘خ’ ہو، عرب کا گرائمر ہو یا انگریز کا انداز ہو، اردو دان کے لیے کچھ مشکل نہیں.
“ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے،
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی،
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی،
اردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی.”
انگریز کی آمد کے بعد جہاں برصغیر کی ترقی منجمد ہوئی وہاں اردو زبان پر بھی بند باندھے گئے. لیکن پھر بھی آج پوری دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جن کی سب سے زیادہ تعداد 2 کروڑ افراد پاکستان اور 5 کروڑ افراد ہندستان میں ملے گی. دنیا میں جہاں ہر چیز کا ایک دن مقرر ہے وہیں 9 نومبر کو اردو کا عالمی دن منایا جاتا ہے. بھارت میں یہ دن بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے، اردو کانفرنسز، مشاعرے، سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں جو اس بات پر مذاکرے کرتے ہیں کہ اردو کو کیسے باقی رکھا جائے اور غیر اردو دانوں تک پہنچایا جائے. بھارت میں اکثر پروگرام اور سمپوزیم اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ماتحت کئے جاتے ہیں. بھارتی فلم یا گانوں کی انڈسٹری کی بات بھی کریں تو اگر اس میں سے اردو کو حذف کر دیں تو کچھ باقی نہیں بچے گا. بھارت اردو کے بغیر آگے بڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.
“یاران خوش مذاق نے اللہ کی پناہ،
اردو کو بے قصور مسلمان کر دیا.”
بھارت میں کچھ لوگ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان بتانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو تقاریب میں غیر مسلم اردو شاعروں، مصنفوں، مدرسوں اور دیگر محبان اردو کی کوششوں کو سراہنے اور آگے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے کچھ پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار انڈین لینگویجز اور آل انڈیا ایسوسی ایشن آف اردو ٹیچرز آف کالجز اینڈ یونیورسیٹیز نے مطالبہ کیا ہے کہ 31 مارچ کو یوم اردو منانا چاہیے. اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن پنڈت دیو ناراین پانڈے اور جے سنگھ بہادر نے اردو کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں.
“مٹ جائیں گے مگر ہم مٹنے نہ دیں گے اس کو،
ہے جان و دل سے پیاری ہم کو زباں ہماری.”
اقبال کے برعکس یہ دو حضرات اردو کے شاعر نہیں تھے لیکن بہرحال یہ لوگ اردو محافظ دستہ کے حامی ضرور تھے جس نے بھوک ہڑتال کی تھی، تاکہ اردو کو اتر پردیش جیسی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے. پانڈے بھوک ہڑتال پر 20 مارچ، 1967ء پر کانپور میں کلکٹر کے دفتر کے رو بہ رو بیٹھے تھے جب کہ سنگھ ایک گروہ کا حصہ تھے جس نے لکھنؤ میں قانون ساز اسمبلی کے رو بہ رو دھرنا دیا. پانڈے 31 مارچ کو وفات پا گئے جب کہ سنگھ نے اس کے کچھ دنوں بعد اردو کی راہ اپنی جان کی قربانی دی. آج اردو بھارت کی دفتری زبانوں میں شامل ہے، اردو کو بھارت کی 6 ریاستوں میں دوسرے درجے کی اور 1 ریاست میں پہلے درجے کی زبان کا شرف حاصل ہے.
“تھا عرش پہ اک روز دماغِ اردو،
پامالِ خزاں آج ہے باغِ اردو،
غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم،
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغِ اردو.”
پاکستان میں بھی قومی سطح پر ایک ادارہ 1979 میں نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ جو آجکل نیشنل لینگویج اتھارٹی کے نام سے موجود ہے اور اس ادارے کا کردار صرف کاغذوں تک محدود ہے. نجی سطح پر انتہائی کم پلیٹ فارمز ہیں جو اردو کو سنبھالے ہوئے ہیں. وطن عزیز میں اپنی مدد آپ کے تحت اردو کو بچانے کی کوشش جاری ہے. لیکن آج یہاں نظم، نثر، غزل اور اشعار کا معیار زوال کا شکار ہے. اگر غالب کو عالم ارواح سے برصغیر کے دورے پر بلایا جائے تو عصر حاضر میں شعر کے معانی و مفاہیم دیکھ کر وہ فوراً واپسی کا ارادہ کر لیں گے.
“کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے،
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے.”
سیاست کی بات کے بغیر ہمارا موضوع مکمل نہیں ہوتا، اور وطن عزیز میں اردو بھی سیاست کی نظر ہوئی. کہتے ہیں محمد علی جناح نے 1948 میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو ہوگی، لیکن سپریم کورٹ نے 2015 میں اسکو دفتری زبان بنانے کا آرڈر جاری کیا، خیر. قومی زبان ہی سرکاری زبان ہوتی ہے، با ایں ہمہ پاکستانی گزشتہ 67 برس سے اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں، اسمبلیاں قراردادیں پاس کرتی ہیں، یہ کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز ہے، لیکن صحیح معنوں میں اس کا نفاذ نہیں ہو سکا. جہاں ارباب بست و کشاد نے اردو کے ساتھ سوتیلا پن رکھا وہیں اہل وطن نے اردو کو کسمپرسی کی حالت میں رہنے دیا.
“وہ دشمنِ اُردو ہیں وہ ہیں دشمنِ مِلّت،
کرتے ہیں جو اُردو کی سلاست کو سبوتاژ.”
سول و ملٹری یا جوڈیشنل کی اعلیٰ سروسز تک رسائی‘ ترقی کے مواقع‘ سماجی حیثیت اور مرتبے ایک ایسی زبان کے مرہون منت رہے ہیں جس سے ملک کی پچانوے فیصد آبادی قطعی طورپر نابلد ہے. ایک طبقہ مغرب زدہ بھی ہے جو اردو کو زیر لب لانا اپنی توہین سمجھتا ہے. میں انگریزی کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا، اس تحریر میں بھی کچھ الفاظ انگریزی سے مستعار ہیں. لیکن یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ قومیں اپنی زبان کے بغیر ترقی نہیں کرتیں. لیکن ہم نے اردو کو طاق نسیاں میں ڈال دیا محض اس وجہ سے کہ اس میں جدید علوم کو اپنے اندر سمونے کی سکت نہیں ہے، وطن عزیز کے فیصلوں میں ایسی ہی مدقوق منطقیں وافر ملے گی.
“وہ اردو کیا ہے، یہ ہندی زباں ہے،
کہ جس کا قائل اب سارا جہاں ہے.”
جہاں کچھ لوگ اردو کی شیرینی اور دلکشی سے ناآشنا ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں کہ انہیں اردو پر اتنا ناز تھا کہ شاید ہی کسی کو کسی شے پر ہو. جیسے عطا تراب کا شعر ہے
“ناز و انداز میں شائستہ سا وہ حسنِ نفیس،
ہُو بہُو جانِ غزل ہے مری اردو کی طرح.”
نسیم دہلوی کو تو اردو کی فصاحت پر اس قدر ناز تھا کہ:
“نسیمِ دہلوی، ہم موجدِ بابِ فصاحت ہیں،
کوئی اردو کو کیا سمجھے کہ جیسا ہم سمجھتے ہیں.”
میر تقی میر بھی اردو میں کسی کو اپنا ہم پلہ نہ سمجھتے تھے؛
“گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر،
یہ ہماری زبان ہے پیارے.”
منیش شکلا بھی اردو کو خراج تحسین اس انداز میں دیتے ہیں؛
“بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا،
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا.”
معزز قارئین ہمارے آبا و اجداد کو اردو سے اس قدر لگن اور محبت تھی، جب کہ انکی اپنی زبان فارسی یا عربی تھی، لیکن چونکہ اہل ہند کے اندر مسلم دور حکومت کی وجہ سے یہ وصف پیدا ہوا کہ وہ ہر فائدہ مند چیز کو قبول کرتے اور اپنے اندر جذب کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے اردو کو اپنے سماج میں رابطے کی مضبوط شکل بنانے کے لیے مکمل جگہ فراہم کی اور ساتھ ساتھ اسکی آبیاری بھی کی. بھلے وطن عزیز میں اردو بولنے والے تعداد میں کم ہیں لیکن آپسی بھائی چارے اور ایک دوسرے کے غم و خوشی کو سمجھنے میں قومی زبان اردو کا ہی کردار بنتا ہے، ہم دعاگو ہیں کہ اردو کا کھویا مقام اسکو واپس مل جائے. آخر میں اقبال اشعر کی ایک نظم جو اردو اور اردو کو تناور درخت بنانے والوں کا ایک نقشہ کھینچتی ہے،
“اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی،
میں “میر” کی ہمراز ہوں “غالب” کی سہیلی،

دکّن کے “ولی” نے مجھے گودی میں کھلایا،
“سودا” کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا،
ہے “میر” کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا،

میں “داغ” کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی،
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی،

“غالب” نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا،
“حالی” نے مرووت کا سبق یاد دلایا،
“اقبال” نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا،

“مومن” نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی،
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی،

ہے “ذوق” کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے،
“چکبست” کی الفت نے میرے خواب سنوارے،
“فانی” نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے،

“اکبر” نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی،
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی،

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ،
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا،
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ،

اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی،
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی…”.!!.

2 تبصرے “اردو ہے جس کا نام—-محمد حارث خان یوسفزئی

  1. لکھاری کو گہرے مطالعے پہ شاباش دیتی ہوں

    1. ماشاء اللّٰہ، بہت ہی عمدہ اور جامع تحریر، حقائق اور گہری تحقیق پر مبنی ہے۔ ہم سب کو مل کر اسکی اہمیت اجاگر کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں