آخروہی ہوا، جس کا ڈر تھا ! …………… قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کرونا وبا کی روک تھام کے لئے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی ذمے داری کس پر عائد ہونی چاہیے، اس کا جواب عوام سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ بیرون ملک آنے والے شہریوں کو سیکورٹی کے لحاظ سے چیک کرے اور پھر کرونا کے بعد ان کے فرائض بڑھ گئے کہ کرونا متاثرہ شہری حکومتی نگرانی کے بغیر آبادی میں داخل نہ ہونے پائے۔ اس اَمر میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہی کہ کرونا وائرس، پاکستا ن میں پیدا نہیں ہوا، بلکہ بیرون ملک شہریوں کی زمینی و فضائی راستوں کی آمد کی باعث پھیلا۔
وفاق و صوبائی حکومتوں میں باہمی رابطوں کی کمی و سیاسی اختلافات کی پوائنٹ سکورنگ کے باعث عوام نے کرونا کو سنجیدہ ہی نہیں لیا، عمومی تاثر یہی گیا کہ کرونا کے نام پر ”سیاست“ ہو رہی ہے۔ کسی بھی ہنگامی نوعیت کے حالات میں سب سے پہلے عوام (پارلیمنٹ)کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، اگر عوام و ریاستی ادارے مل کر دشمن کا مقابلہ نہ کریں تو شکست مقدر بننے کی ’تلخ حقیقت‘ سے اہل وطن بخوبی واقف ہیں۔ چین میں کرونا وبا کے بعد حکومت نے سخت لیکن اہم اقدام کیا کہ چین سے پاکستانی شہریوں کی واپسی کو روک دیا۔ لیکن پالیسی سازوں نے نہ جانے فراموش کیوں کیا کہ چین سے براہ راست کوئی پاکستانی شہری اگر نہیں آرہا تو دوسری مملکت سے تو آسکتا ہے۔
امریکا سمیت یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے شہریوں نے جب چین سے واپسی کا سفر باندھا تو اپنے ساتھ کرونا کی وبا بھی لے گئے۔ دنیا اُس وقت تک کرونا کو اتنا خطرناک نہیں سمجھ رہی تھی، جب کہ مختلف مفروضوں کی وجہ سے کرونا وائرس کی حقیقت مشکوک ہوتی چلی گئی،یہاں بھی صوبائی حکومتیں بے بس رہی کہ لاک ڈاؤن کرنے کے لئے وفاقی اداروں کے زیر انتظام ملکی و بین الصوبائی سرحدیں بند کئے جانا ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے وفاق پر دباؤ بھی بڑھایا ہوگا، لیکن دنیا اب بھی وفاقی پالیسیوں پر حیران و پریشان ہے۔دوسری جانب دنیا بھر کی عالمی معیشت بند کرنے کے بعد عوام کو محدود آمد و رفت پر سختی سے کاربند رکھنے کے باوجود 74لاکھ سے زائد افراد کرونا وبا کا شکار ہوچکے،پاکستا ن میں کرونا وبا کا پھیلاؤ کم ظاہر کیا جاتا رہا، کیونکہ مملکت کے پاس ٹیسٹ کرنے کی انتہائی کم صلاحیت تھی۔ٹیسٹنگ کم ہونے کے باعث تعداد بھی کم ظاہر کی جا رہی تھی، رفتہ رفتہ ٹیسٹ کی استعداد بڑھی تو متاثرین کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی اور بالاآخر پاکستان اِس وقت کرونا عالمی انڈیکس میں 15ویں نمبر پر آچکا ہے۔
طویل مدتی بندش کے بجائے جز وقتی پابندیوں کے لئے اجناس و مقامی مسائل کو مد نظر رکھا جانا ضروری تھا۔گر اشرافیہ لاک ڈاؤن کی وجہ بنے،تو اشرافیہ ہی لاک ڈاؤن کے خاتمے کا سبب بھی بنے۔ جب مزدور قوت کو انتہائی ضرورت ہو گی تو وہ بری طرح متاثر ہوں گے۔ گمان غالب یہی ہے کہ وَبا سے متاثرہ آبادی پچاس فیصد تک بیمار ہوسکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد کی موت ہوسکتی ہے۔ یہ وَبا سینئر مینجمنٹ کو اتنی ہی مشکلات سے متاثر کرے گی جتنی باقی ورک فورس۔ کھانے پینے، صابن، کاغذ، لائٹ بلب، پٹرول، فوجی سازو سامان کی بحالی کے حصے اور میونسپل واٹر پمپوں سمیت دواؤں سمیت وسیع پیمانے پر اجناس کے تمام ممالک میں بڑی قلت کے اندیشے قوی ہیں، دوسری جانب ذخیرہ اندوزوں نے رہی سہی کسر پوری کی اور اس موقع سے شرمناک حد تک فایدہ اٹھایا۔بہت ساری صنعتیں، جیسے کہ الیکٹرانکس، آٹوموبائل، اور لباس، مثلاََ تکمیل یا اس سے بھی قریب ہونے کے لئے مشکل نہیں ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کے لئے جن سے انسانوں کے قریبی رابطے کی ضرورت ہوتی ہے — اسکول، تھیٹر میں فلمیں دیکھنا، یا ریستورانوں میں کھانا، ان سے پرہیز کے نام پر پابندی عائد کرنا کیا واقعتاََ یہ موثر اقدامات تھے۔
پریس کانفرنسوں کی بہتات نے عوامی رویئے میں سنجیدگی پیدا کرنے کے بجائے بے یقینی صورتحال کو بڑھایا۔ متضاد بیانات و سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے عوام کنفیوژ ہوئے اور انہیں یہ فیصلہ کرنے میں پریشانی کا سامنا ہوا کہ کرونا واقعی ان کی جان و مال کو متاثر کرسکتا ہے۔ عجیب و غریب انداز میں راشن کی تقسیم نے عوامی اعتماد کو مجروح کیا۔اس پر حکومت کی جانب سے ہنگامی مالی امداد دینے کی مربوط پالیسی کی ناقص حکمت عملی مستقبل کے خدشات کا احساس کرنے سے قاصر نظر آئی۔ عوامی نمائندوں کے ذریعے آگاہی کی مہم اعتماد سازی کی فضا قائم کی جاتی تو آج حکومتی آکڑے کچھ اور ہوتے۔ اب موجودہ صورتحال میں انسانی جانوں کی نقصانات کی وہ رفتار بہرحال نہیں ہے جو متاثرہ افراد کی ہے۔ لیکن کونسا پہلو باعث اطمینان قرار دیا جاسکتا ہے تو اس پر بھی عوام میں بے یقینی کی صورتحال زیادہ ہے اور بہت کم تعداد ماننے کو تیار نہیں کہ تمام ہلاکتیں ’کرونا وائرس‘ کی وجہ سے ہی ہوئی ہوں گی۔
موت کی بنیادی وجہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے سامنے آتی ہے، لیکن اس اہم ترین پہلو کو قصداََ کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے، اس کا جواب دنیا بھر میں حوصلہ افزا نہیں دیا جاتا۔ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات نظر انداز کرنے سے اس وقت مملکت دشوار ترین صورتحال کا شکار ہے یا پھر باہمی چپقلش نے صورتحال کو سنگین بنایا ہے، اس کا فیصلہ بھی عوام کو خود ہی کرنا ہے۔تادم تحریر اس وقت تک 70کے قریب ارکان اسمبلی کرونا میں مبتلا ہوئے، جبکہ انتقال کرنے والوں میں موجودہ و سابق اراکین کی تعداد آٹھ کے قریب ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیدوار تین فیصد کے بجائے ایک فیصد تک سکڑنے کے خدشات منڈلارہے ہیں،وفاقی بجٹ کے لئے آئی ایم ایف نے مزید کتنی کڑی شرائط عاید کی ہیں یہ میزانیہ پیش کرنے کے بعد ہی واضح ہوگا۔
دوسرے ناخوشگوار معاملات سے بھی نمٹنے کی ضرورت ہوگی۔ انتہائی محدود اینٹی وائرل سپلائیوں تک کس کو ترجیحی رسائی ہوگی؟ عوام کسی بھی ایڈہاک ترجیح کو غیر منصفانہ سمجھیں گے، جس سے وبا کے دوران مزید اختلاف اور خلل پیدا ہوسکتا ہے،جو جلد ہی ان پر عملدرآمد کرنے کی اہلیت کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ واضح طور غیر معمولی طبی اور غیر طبی جواب دینے کا مطالبہ ضرور سامنے آئے گا، جس کے لئے وضع کردہ کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اب تک جتنے خدشات تھے وہ یقینی بن رہے ہیں کہ بالاآخر وہی ہورہا ہے، جس کا ڈر تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں