عوامی رویے اور لیڈر ————— خدیجہ مرزا

گھر کے سربراہ پر گھر کا کوئی فرد کسی غلطی کی وجہ سے تنقید کرے تو سربراہ کو اس تنقید کے حوالے سے ضرور سوچنا چاہئے اوراپنا محاسبہ کرکےاصلاح کرنی چاہئے نہ کہ تنقید کرنے والے کو نشانہ بنایا جائے،ایسے موقع پر گھر کے افراد کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی سربراہ پر تنقید کرنے کی وجہ کو مد نظر رکھ کر اس کی اصلاح کریں نہ کہ سربراہ کی خوشامد کے چکر میں تنقید کرنے والے سے منہ موڑ لیں۔ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے نہ کہ تنقید برائے تنقید ،یہ ہمارے معاشرے کا المیہ بن چکا ہے کہ ہم تنقیدکو سنجیدہ لیتے ہیں اور نہ ہی تنقید اصلاح کی غرض سے کرتے ہیں۔پاکستان کی سیاست کا اگر جائزہ لیں تو وہاں بھی یہی رسم ہے،اپوزیشن اراکین کی تنقیداور حکومتی رویوں میں ہمیں روز مرہ ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ،اپوزیشن بینچز اور حکومتی بینچز پر بیٹھنے والے اراکین اسمبلی کے رویوں میں واضح فرق عوام کو نظر آتا ہے کوئی بھی سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوتا ہے اور وہ حکومت پر تنقید کرتا ہے تو اس وقت اس سیاستدان کا موقف ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی اصلاح کررہا ہے اور وہ مینڈیٹ عوام نے اسے دے رکھا ہے اس کا حق ادا کر رہا ہے مگر جب وہی سیاستدان حکومت کا حصہ ہوتا ہے تو اسے اپوزیشن کی تنقید نشتر کی طرح چھبتی ہے،ایسے ہی رویے ہمیں عام انسان میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جب انکی حمایت یافتہ جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہوئے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں ہوٹلوں پر اس حق کا برملا استعمال کرتے نظر آتے ہیں عموما تواس استحقاق کے استعمال میں ہم اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ دوست دوست نہیں رہتا،غرض یہ کہ رشتے ناطے خراب ہوتے ہیں خاندانوں میں ناراضگیاں اور رنجشیں بڑھتی ہیں اور صورتحال تب یکسر تبدیل ہوجاتی ہے کہ ہماری جماعت حاکم بن جاتی ہے تو پھر ہمیں بھی اپوزیشن کی تنقید اور اپوزیشن کے سپورٹرز کی تنقید انکی عادت،حسدیا محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ نظر آتی ہے، نوجوان نسل سیاسی مخالفت کی بنیاد پر کسی بھی حد تک جانے کو تیاررہتی ہےاور لیڈر کی محبت میں عزیز و اقارب سے بھی منہ پھیرنے کو تیار رہتے ہیں۔لیڈر کی غلطی کا دفاع کرتے وقت وہ بھول جاتا ہے کہ لیڈر بھی انسان ہی ہے اور اس کی انسانی صفات کو بھول کر اسے فرشتہ ظاہر کرنے میں لگ جاتا ہے۔اس موقع پر مجھے اپنے والد محترم کے ایک قریبی دوست کی بہت دلچسپ بات یاد آگئی۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ایک باپ اپنی اولاد سے کتنی محبت کرتا ہے لیکن پھر بھی اگر میں کسی باپ کو یہ کہوں کہ تمہاری اولاد میں فلاں عیب پایا جاتا ہے تو وہ باپ بغیر تصدیق کے برا مان جائے گا اورتحقیق نہیں کرے گا کہ یہ عیب واقعی اس کی اولاد میں پایا جاتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس اگر اسی باپ کو میں یہ کہوں کہ تمہارے لیڈر میں فلاں عیب پایا جاتا ہے تو وہ اس بات کی تصدیق کے باوجود اس بات کو نہ صرف ماننے سے انکار کردے گا۔بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ مجھ سے بھی نارضگی کا اظہار کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دوبارہ میری صورت بھی دیکھنا پسند نہ کرے۔ان کی یہ بات کافی حد تک حقیقت پر مبنی ہے۔کیونکہ ہماری عوام کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے لیڈرز کی محبت میں اپنوں کی محبت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ہماری اپنے لیڈرز سے محبت ملکی مفاد کی حد تک یا اس کی صفات کی حد تک ہونی چاہئے نا کہ اس لیڈر کی غلامی اور اسے فرشتہ صفت ثابت کرنے میں ہو۔خدارا اپنے لیڈر کے ہر کام اور فیصلے کا دفاع دینی فریضہ سمجھ کر نہ کیا جائے،بلکہ اپنے لیڈر کے غلط فیصلوں کیخلاف موثر آواز بننا سیکھیں،اس سے ہر کرپٹ اور ملکی مفاد کیخلاف فیصلے کرنے والے سیاستدانوں کو عوام کی طاقت کا اندازہ ہوجائے گا اور وہ اپنا رویہ تبدیل کریں گے،۔تب ہی ہم ایک قوم اور ہمارا ملک ایک خوشحال ملک بنے گا۔ضرورت اس بات کی ھے کہ غلط فیصلہ کسی کا بھی ہو اسے غلط کہیں،سیاست دانوں کی کرپشن اور اقربا پروری کا دفاع کرنے کی بجائے احتساب کیا جانا چاہیے ،اپنی ذات اور شخصیت کوکسی کا ترجمان بنانے کی بجائے حقیقت کو حقیقت تصور کیا جانا چاہیے ، جمہوریت کا تویہی خاصہ ھے کہ اگر کسی جماعت نے برسراقتدا آکر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آئندہ ووٹ کی طاقت سے اسے بدل دیا جائے،ووٹ دیتے وقت یہ ضرور دیکھا جانا چاھیے کہ کیا ہمارا نمائندہ جس کا اصل کام اسمبلی میں جا کرقانون سازی کرنا ہے اسمبلی میں پہنچنے کے بعد اسکی کارکردگی کیا رہی ،جب تک کارکن اور عام ووٹر کو شعور نہیں آئے گا اس نظام میں تبدیلی ممکن نہیں ہے،آج کا نوجوان جو زیادہ پڑھا لکھا ہے باشعور ہے اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہے اسے حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے نہ کہ وہ بھی ان پڑھ اور جاہل لوگوں کی طرح اپنے لیڈر اور سیاسی جماعت کی اندھی تقلید کرے،اگر آج کا نوجوان خود کو تبدیل نہیں کرے گا کسی جماعت کا آلہ کار نہیں بنے گا بلکہ اسکا ہر فیصلہ اپنے مستقبل،قوم اور ملک کے بہترین مفاد میں نہیں ہوگا تو پھر نہ تو یہ سیاسی کلچر تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں،مہذب ممالک جہاں شرح تعلیم ہم سے کہیں زیادہ ہے اور وہاں کا نوجوان ہمارے ملک سے کہیں زیادہ باشعور ہے وہاں کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں وہاں اگر انکا پسندیدہ سیاسی لیڈر غلط فیصلہ کرے تووہ احتجاج کرتے ہیں،یہی انکی ترقی کا راز ہے کہ وہ تنقید کو اصلاح کےطورپر لیتے ہیں اور سچائی کا ساتھ دیتے ہیں حقیقت پسند ہوتے ہیں،ہمارے نوجوان مغربی فیشن کی نقل کرتے دیر نہیں کرتے مگر میں ان سے کہوگی خدارا مغربی جمہوریت کی بھی نقل کریں تاکہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں‌

عوامی رویے اور لیڈر ————— خدیجہ مرزا” ایک تبصرہ

  1. کرتے ہیں سوال اول، دیتے ہیں جواب آخر
    ہمارے ملک کے کتنے فیصد لوگوں کو انصاف تک رسائی حاصل ہے اتنے ہی ہم باشعور ہیں اور اپنی اپنی شعوری صلاحیتوں کے مطابق اپنا اپنا کردار یا رول ادا کر رہے ہیں۔بقیہ منازل کے لئے انتظار فرمائیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں