صحافی برداری کا قائی قبیلہ !…… قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

صحافی برداری و قائی قبیلے میں بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، اس اَمر کا احساس مجھے سیریل ’ارطغرل غازی‘ دیکھنے کے بعد ہوا۔ صحافی برداری کا ارطغرل غازی کوئی نہیں، یہ مسلم حقیقت ہے۔ قائی قبیلے و صحافی برداری میں سب سے قدر مشترک، ان کا جہد ِمسلسل میں رہنا ہے۔ صحافی اپنے قلم سے حلیمہ خاتون، شہناز اور شاہینہ کی طرح محبت کرتا ہے اور ان کی طرح جان بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے، کئی مرتبہ بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے، بدقسمتی سے اس قبیلے میں قُرط اوغلو، اورال اورقرط طویغار جیسے کردار بھی پائے جاتے ہیں جبکہ بامسی بابر،دمیر،روشنان اورترگت الپ جیسے کردار اپنے فرض کے ساتھ مکمل وفادار، ان کے مقابل ہیں۔
صحافتی قبیلے میں شاہ سیلمان اور ارطغرل غازی جیسا کوئی سربراہ نہیں جو اپنے دوراندیش فیصلوں سے مسائل کو حل کرنے میں معاون بن سکے،ابن عربی کی مثل کئی کردار ہیں، لیکن یہ صرف ماضی کے سنے قصے ہی سناتے رہتے ہیں۔قائی (صحافی) قبیلے میں چھوٹے چھوٹے گروہوں کے اختلافات کو گل دارو حل کرنے کی کوشش تو کرتا رہتا ہے لیکن اس میں قوت فیصلہ کی کمی اور اثر رسوخ کے حامل قوتوں کے اثرات قبول کرنے کی تاثر کی وجہ سے موثر طاقت نہیں، گو، گل دارو بہادر ہے لیکن ا س میں کچے کانوں اور سازشوں کو سمجھنے میں صلاحیت کی کمی کے باعث قبیلہ مستقل آزمائشوں میں ہی رہا۔ قائی قبیلہ امن و سکون کے لئے جنگ کو ترجیح دیتا ہے، لڑتے لڑتے کئی جانبازوں کی قربانیاں بھی دیتا ہے، اُسے کئی اطراف سے مخالفین کا سامنا بھی رہا۔لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جنگ سے تھک کر امن کے طالب ہوتے ہیں۔
اس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ قائی قبیلے کو صحافی برداری سے کیوں تشبہہ دے رہا ہوں، اس کی بنیادی وجہ صحافت سے وابستہ احباب اچھی طرح جانتے ہیں، اداروں میں گروپ بندیاں، تنظیموں میں دھڑے بازیاں، ایک دوسروں کی ٹانگیں کھینچنا اور فروعی مفادات کے لئے حد سے تجاوز کرنا عام روایت ہے۔ ارطغرل سریل کے تمام کردار کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے، سیاست، خاندانوں و ذریعہ معاش کے اداروں میں بہ اتم پائے جاتے ہیں۔ تاہم برسہا برس سے حل نہ ہونے والے مسائل کا ذکر کرنے سے گریز کروں گا، کیونکہ اس وقت کرونا صورتحال میں صحافی برداری کو جن مسائل کا سامنا ہے، پہل اس کے لئے سنجیدگی کی ضرورت زیادہ ہے۔کرونا کی وجہ سے اخباری صنعت کا پہیہ جا م ہوچکاہے، پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، انہیں حل کرنے کے لئے قائی قبیلے کی طرح مسائل حل کرنے والے ارطغرل شاید موجود ہوں، لیکن وہ مثبت کردار ادا نہیں کرپارہے، جس کی توقع صحافی برداری کرتی ہے۔ اس کی وجوہ کیا ہیں، یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
صحافی برداری کی بدقسمتی ہے کہ وہ مسائل کو بیان کرنے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ کی اُس طرح مدد بھی نہیں لے سکتا، جیسے کسی ایشوزکے لئے آواز اٹھاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی بیشتر رپورٹنگ پر جان سے مارنے کی دہمکیاں اور شہادت مقدر بن جاتی ہیں، قائی قبیلے کی طرح اُس شہید کو بے وطن، دفن کرکے اس کا’قلم‘ سرنشان تو بنا دیا جاتا ہے لیکن اُس کے بعد قلم کے مزدور کا خاندان کی گذر اوقات و مسائل کا فالواپ دیکھنے و پڑھنے کو نہیں ملتا۔ قائی قبیلہ بڑے مقصد کے لئے بڑھتا رہتا ہے اور شہادتوں کی داستانوں میں بہادروں کی جرات کو رقم کرتے کرتے بالاآخر اپنی منزل بھی پا لیتا ہے، قبیلے، سرداروں اور محلاتی سازشوں سے مقابلہ کرتے کرتے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد بھی رکھ دیتے ہیں، لیکن صحافی برداری کے مجاہدین (جدوجہد کرنے والے)کو چاہ دا رقبیلے کا کوئی نشاں و امید نظر نہیں آتی۔
ریاست کا صحافی برداری کو ”سردار اعلیٰ‘ کا اعزاز دینے کے باوجود مسائل کو حل کرنے کے لئے بالخصوص کرونا وَبا میں کس قدر تعاون کررہے ہیں، یہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ جسے صحافی، کرونا پروف اور سپر مین ہیں، آتشیں گولیوں اور بیماریو ں و حادثات کا اثر نہیں ہوتا، انہیں خوردونوش کی بھی ضرورت نہیں، بھاری بھاری یوٹیلٹی بلز بھی بھرنا نہیں پڑتے، ٹرانسپورٹ فری اور پیٹرول مفت ملتا ہے۔ان کے لئے ”احساس“ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ صحافی ایک خلائی و ماورائی مخلوق ہے۔قائی قبیلے کے خوبصورت و دیدہ زیب قالینوں کی طرح لفظوں کو ہیرے موتی سے مزین کرکے سربازار فروخت کرنے کے لئے سر، نیزے پر رکھوایا جاتا ہے۔ ہزاروں صحافی بے روزگار ہوچکے، یہ قلم کے مزدور دوسرا کوئی کام بھی نہیں جانتے،انہوں نے برسہا برس سے صرف قلم سے لفظوں کو پرویا ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ دودھ کی نہر نکالنے کے لئے پہاڑ کس طرح کھودے جائیں۔ان کے مقابل صحافی لبادے میں سعد تین کوپیک کی مثل زیادہ کامیاب، وہ ہیں جن کے پاس مکھن و دیسی گھی کی اشرفیاں وافر مقدار میں موجود ہے۔
ریاست، میڈیا ہاؤسز کے ان قلمی مجاہدین سے بہت کچھ چاہتی ہے، لیکن ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ کے سوا کبھی کچھ نہیں۔ عوام شاید اس حقیقت سے کم آگاہ ہیں کہ صحافی برداری کے 95فیصد احباب کو بدترین حالات کا سامنا ہے، ان کے مسائل کوکم کرنے کے لئے بیشتر میڈیا ہاؤسز جتنا کرسکتے تھے اور کررہے ہیں وہ بہت بڑا عمل ہے۔ کم ازکم میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ ان کے قبیلے کا فرد حوادث زمانہ کا شکار بن کر سیاہ تاریخ میں گم ہوجائے۔ لیکن اس افراتفری کے دور میں اذدحام کا یہ عالم ہے کہ وہ خود خوف زدہ ہیں کہ کسی ہاتھی کے پیر تلے کچلنہ جائیں۔ یقین کیجئے میڈیا کو حقیقی معنوں میں بدترین زوال کا سامنا ہے۔
میڈیا کے اداروں میں دو قبیلے قائی(صحافی) و دودورگا (مارکیٹنگ)ہیں۔ جن میں اتحاد کا مظاہرہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ مارکیٹنگ منجمنٹ کو بھی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح پروڈاکٹ کو فروخت کرنا چاہتے ہیں تاکہ اُن کا کمیشن پکا ہو۔ لیکن جب تک پراڈکٹ میں دَم خم نہیں، کسی چورن کو زیادہ عرصے تک فروخت نہیں کیا جاسکتا، انہیں چاہ دا ر قبیلے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ بُزکشی میں پیادے مارے اور ان کے خیمے جلا دیئے جاتے ہیں،بالخصوص صحافی قائی قبیلے کو مشورہ ضرور دوں گا کہ قُرط اوغلو اورقرط طویغار جیسے کرداروں سے بار بار خود کو نہ ڈسوائیں، گل دارو، سردار خوشنود اور تہمور جیسے کم فہم کرداروں پر زیادہ بھروسہ کرنا مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا۔ جو کسی کے حق میں بہتر نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں