قومی اسمبلی سے وفاقی بجٹ منظور، اپوزیشن نے پلے کارڈز اور پوسٹرزاٹھا کر احتجاج

اسلام آباد(سی این پی)قومی اسمبلی سے فنانس بل 2020 کثرتِ رائے سے منظور ہو گیا، اپوزیشن کی کوئی بھی تجویز منظور نہ ہو سکی۔قومی اسمبلی سے بجٹ منظوری کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ کیا جبکہ پلے کارڈز اور پوسٹرز بھی لہرا دیئے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن اراکین کی جانب سے پلے کارڈز لہرانے پر برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت کی پلے کارڈز قواعد کی خلاف ورزی ہیں ان کو ہٹایا جائے۔ ووٹنگ میں بی این پی مینگل کے 2 ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2020-21ءکے 7137 ارب روپے حجم کے ٹیکس فری وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی، این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا‘ سماجی تحفظ کا پروگرام 187 ارب سے بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا، توانائی، خوراک اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کےلئے 179 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، محصولات کا ہدف 6573 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 650 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7 فیصد رہنے کا امکان ہے،سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کر دی گئی، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے سے کم کرکے 1روپے 75 پیسے کردی گئی، پاکستان میں بنائے جانے والے موبائل فونز پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے‘ درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کو خام مال پر 5.5 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد اور مشینری پر ٹیکس 5.5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کیا گیا ہے‘ کم سے کم تنخواہ 15 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کردی گئی‘ موٹرسائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کردیا گیا‘ ٹیکس ادا نہ کرنے والے ایسے افراد جو سکول کی سالانہ فیس 2 لاکھ روپے سے زائد ادا کرتے ہیں ان سے سو فیصد زائد ٹیکس وصول کیا جائے گا‘ ڈبل کیبن پک اپ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی‘ انرجی ڈرنکس پر ایف ای ڈی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد‘ درآمدی سگریٹس‘ بیڑی ‘ سگار اور تمباکو کی دیگر اشیاءپر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کردیا گیا ہے‘ کووڈ۔ 19 سے متعلقہ صحت کے ساز و سامان کی درآمد پر جاری استثنیٰ مزید تین ماہ کے لئے توسیع دی گئی ہے، آئندہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کو 0.4 فیصد سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا، کرنٹ اکاﺅٹ خسارہ کو 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائے گا، افراط زر کی شرح 9.1 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد تک لائی جائے گی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔وفاقی وزیر حماداظہر نے بعض ترامیم کے ساتھ مالی بل 2020 ءزیر غور لانے کے لئے پیش کیا جس میں حکومتی ارکان کی کچھ ترامیم منظور کرکے اسے مالی بل کا حصہ بنا دیا گیا۔آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اعدادوشمار کے مطابق کل ریونیو کا تخمینہ 6,573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4,963 ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو 1,610 ارب روپے شامل ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2,874 ارب روپے کا ریونیوصوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3,700 ارب روپے ہے۔ کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7,137 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارہ 3,437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو کہ جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس 0.5 فیصد ہوگا۔احساس غریب پرور پروگرام کا بجٹ بڑھا کر 208 ارب روپے کر دیا گیا ہے،توانائی، خوراک اور دیگر شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کیلئے 179 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ ایچ ای سی کا بجٹ بڑھا کر 64 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔کم قیمت پر مکانات فراہم کرنے کےلئے نیا پاکستان ہاﺅسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کئے ہیں۔اخوت فاﺅنڈیشن کی قرضہ حسنہ سکیم کے ذریعے کم لاگت رہائشی مکانات کی تعمیر کے لئے ڈیڑھ ارب مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں خصوصی علاقوں آزادکشمیر کے لئے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لئے 32 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کے لئے 56 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، سندھ کو 19 ارب روپے اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ ان کے، این ایف سی حصے سے زائد فراہم کی گئی ہے۔ ترسیلات زر بڑھانے کیلئے رقوم کی منتقلی کے لئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کے لئے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ بجٹ میں کامیاب نوجوان پروگرام کے لئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ شیخ زید ہسپتال لاہور، جناح میڈیکل سنٹر کراچی اور دیگر چار ہسپتالوں کے لئے13 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے لئے 1 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کر دی ہے۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کےلئے وائیبلٹی گیپ فنڈ کے لئے 10 کروڑ روپے، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کےلئے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لئے 10 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔زرعی شعبہ میں ریلیف پہنچانے کےلئے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے 2020-21ءکے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو کو0.4 فیصد سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کو کو 4.4 فیصد تک محدود رکھے جانے کے اہداف مقرر کئے ہیں۔ افراط زر کو یعنی مہنگائی9.1 فیصد سے کم کر کے 6.5 فیصد تک لائی جائے گی، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کےلئے 650 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔بجٹ میں جاری منصوبوں کے لئے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لئے 27 فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ سماجی شعبے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے لئے گزشتہ سال 206 ارب روپے کی رقم کو بڑھا کر 249 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔کورونا اور دیگر قدرتی آفات سے پیدا صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لئے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔سپیشل اکنامک زونز کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں اور غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لئے حکومت نے 80 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ پانی سے متعلق منصوبوں کے لئے 69 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کثیر المقاصد ڈیم بالخصوص دیامر بھاشا، مہمند اور داسو کےلئے خاطر خواہ مالی وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ سی پیک کے تحت مغربی روٹ کیلئے 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ریلوے کے ایم ایل۔1 اور دیگر منصوبوں کیلئے 24 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مواصلات کے دیگر منصوبوں کیلئے 37 ارب مختص کئے گئے ہیں۔ بہتر طبی خدمات، وبائی بیماریوں کی روک تھام، طبی آلات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام امتحانات وضع کرنے، سمارٹ سکولوں کے قیام اور مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت اور اصلاحات کیلئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔21 ویں صدی کے کوالٹی ایجوکیشن چیلنجز پر پورا اترنے کیلئے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات جیسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور سپیس ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کیلئے 30 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ای۔گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز اور 5G سیلولر سروسز کے آغازکیلئے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے سے متعلق اقدامات کیلئے6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبہ جات کیلئے 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھے ہیں۔خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں مختلف پراجیکٹس کیلئے 48 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔زراعت کے فروغ کیلئے ترقیاتی منصوبوں پر 12 ارب روپے کی رقم خرچ کی جائے گی۔ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں ٹی ڈی پیزکے انتظام و انصرام کیلئے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان کی بحالی میں معاونت کیلئے 2 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔سیلز ٹیکس کی شرح 14فیصد سے مزید کم کر کے 12فیصد کردی گئی ہے۔پاکستان ہاﺅسنگ پروگرام کے تحت کم قیمت گھر فراہم کرے گا۔ریبیٹ سکیمز تقریباً ایک دہائی کے بعد تبدیل کی جارہی ہیں اور ریبیٹ کلیمز کو آسان تر بنایا جا رہا ہے۔صنعتی شعبے کی لاگت کم کرنے کے لئے خام مال کو تمام کسٹم ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ان اشیاءکی فہرست میں کیمیکلز، لیدر، ٹیکسٹائل، ربڑ، کھاد میں استعمال ہونے والا خام مال شامل ہے۔ ان ٹیرف لائنوں میں قریب 20,000 اشیاءشامل ہیں کو کل درآمدات کا 20 فیصد ہے۔خام مال اور ثانوی اشیاءپر مشتمل 200 ٹیرف لائنز پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ مقامی انجینئرنگ کے شعبے کی حوصلہ افزائی کے لئے ہاٹ رولڈ کوائلز پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو 12.5فیصد سے کم کر کے 6 فیصد کر دیا گیاہے۔ اس اقدام سے سٹیل پائپ، انڈر گراﺅنڈ ٹینک، بوائلر کی صنعت کو فروغ ملے گا۔کپڑے، سینٹر ویئر، الیکٹروڈز، کمبلوں، پیڈلاکس وغیرہ کو اسمگلنگ سے بچانے کے لئے ان پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم کیاگیا ہے۔کورونا وائرس اور کینسر کی ڈائیگناسٹک کٹس پر عائد تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز ختم کر دئیے گئے۔ ایسے ہی جینیاتی مسائل میں مبتلا بچوں کے لئے خصوصی فوڈ سپلیمنٹس کی قیمتوں میں کمی کے لئے ان کو تمام درآمدی مرحلے پر تمام ڈیوٹیز اور ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ سپلیمنٹری فوڈ بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال پر عائد کسٹم ڈیوٹیز سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے سپلیمنٹری فوڈ اب پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے تحت تیار کی جا رہی ہے۔ اس پروگرام کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے کے لئے ان سپلیمنٹری فوڈز میں استعمال ہونے والے خام مال کو کسٹم ڈیوٹیز سے مستثنیٰ قرار دیاگیا ہے۔کسٹم اتھارٹی کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے اور سمگلنگ کی سزاﺅں کو عقلی اور جامع بنانے کے لئے کم سے کم سزا کے قانون کو متعارف کروائی گئی ہے۔عوام کی سہولت کے لئے عام خریدار کے لئے بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر 1لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز کی درخواست پر ایسے بچوں کے لئے جو وراثتی میٹابولک سینڈ روم میں مبتلا ہیں اور ان کا جسم خوراک کو ایک عام بچے کے جسم کی طرح پراسس نہیں کر سکتا، اس غذا کو خصوصی مقاصد کے لئے درآمد کرنے پر استثنیٰ دیا گیا ہے۔وفاقی حکومت نے صحت سے متعلقہ سازوسامان کی درآمد اور بعد ازاں فراہمی پر 20 مارچ 2020ءکو جاری کئے جانے والے ایس آر او 237 کے ذریعے تین ماہ کا استثنیٰ فراہم کیا۔ کورونا وائرس کی وبا کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور وزارت صحت کی سفارشات کے پیش نظر استثنیٰ میں مزید تین ماہ کے توسیع کی گئی ہے۔بے ضابطگیوں کو دور کرنے اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ءکے گیارہویں شیڈول کو بہتر کرنے کے لئے سے تبدیل کیا گیا ہے تاکہ غیر رجسٹرڈ سے ٹیکس کی وصولی یکمشت کی جا سکے۔ درآمدی سگریٹ، بیڑی، سگارز و چھوٹے سگارز اور تمباکو کی دیگر اشیاءپر عائد ایف ای ڈی کو عالمی ادارہ صحت کے معیارات کے مطابق 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کیا گیا ہے۔ تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کے لئے موجودہ شرح کو بڑھا کر ایک روپے فی کلو گرام کیاگیا ہے۔کیفین پر مشتمل مشروبات صحت کیلئے خطرہ ہیں، اس وجہ سے ان کے استعمال میں کمی لانے کیلئے درآمد اور مقامی فراہمی، دونوں جگہ ایف ای ڈی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کردی گئی۔ ڈبل کیبن پک اپ جس کا تعین فی الوقت اشیاءکی نقل و حرکت کیلئے استعمال ہونے والی گاڑی کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اس کا استعمال ملک کے خوشحال طبقے میں ہے، اس کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بھی یکساں قیمت والی دوسری گاڑیوں کے مطابق ٹیکس لگایا گیا ہے۔ پوٹاشیم کلوریٹ کی درآمد اور مقامی فراہمی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ 70 روپے فی کلوگرام بھی اضافی وصول کیا جاتا ہے۔ ماچس بنانے والوں کی صنعت کی سفارش پر یہ شرح 70 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 80 روپے فی کلوگرام کی گئی ہے۔ یہ شرح وزارت دفاعی پیداوار (منسٹری آف ڈیفنس پروڈکشن) کے زیر نگرانی اداروں کی جانب سے کی جانے والی درآمد اور ان کی فراہمی پر لاگو نہیں ہو گی۔ گذشتہ دو سال سے ایف بی آر نے بڑے ریٹیلرز کیلئے کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کرایا گیاہے۔ ایسے ریٹیلرز کی تمام فروخت آن لائن نظام کے تحت ایف بی آر کے ساتھ منسلک ہے۔ موجودہ قانون میں ان افراد پر سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد ہے جسے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے 12 فیصد کردیا گیا۔ ٹیکس بیس کے دائرہ کار میں پالیسی کے اقدامات کے ذریعے توسیع کیلئے شق 73 میں ترمیم کی گئی ہے۔سیمنٹ کی پیداوار میں حالیہ کمی کے پیش نظر اس کو 2.00 روپے سے کم کرکے 1.75 روپے فی کلو کردیا گیا۔ فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ءمیں چیزوں کی بحق سرکار ضبط کرنے کے قانون کو وسعت دیتے ہوئے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ءمیں درج تمام چیزوں پر اس قانون کو لاگو کردیا گیا ہے۔ ٹیکس گزار کیلئے ضروری نہیں ہو گا کہ وہ اپیلز کے فورم سے اپنی اپیل واپس لے۔اگر ٹیکس گزار 60 دن کے اندر اپنی اپیل واپس لے لیتا ہے تو کمشنر پر کمیٹی کا فیصلہ قبول کرنا ضروری ہو گا۔ سگریٹ اور مشروبات کے علاوہ وہ تمام اشیاءجن پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے اگر وہ بغیر ڈیوٹی کی ادائیگی کے پکڑی جاتی ہے تو ان پر تمام قوانین لاگو ہوں گے،موبائل فون پر سیلز ٹیکس ایکٹ 2014ءکے تحت نویں شیڈول کا سیلز ٹیکس ایکٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ پاکستان میں بنائے جانے والے فونز پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ آڈٹ کی سماعت کو وڈیو لنکس کے ذریعے سرانجام دینا ایک نئی اور وقت کی ضرورت ہے،خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کے موجودہ حالات میں یہ نہایت اہمیت کا تصور ہے۔ قانون میں ترمیم کے ذریعے وڈیو لنک کے ذریعے آڈٹ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ مختلف اداروں کے ڈیٹا بیس تک بورڈ کو رسائی فراہم کرنے کیلئے نئی دفعات قانون میں شامل کی گئی ہیں۔ شادی ہالوں اور تعلیمی اداروں میں ٹیکس گزار والدین کے بچوں کی فیس پر عائد ٹیکس کو ختم کیا گیا ہے۔ کمرشل امپورٹرز اور مینو فیکچرر کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے کیپیٹل گڈز کی امپورٹ میں ٹیکس کے بگاڑ سے بچنے کے لئے محصولات کے مزید وصولی اور چھوٹے اور درمیانے مینو فیکچرر کی سہولت کے لئے درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کو خام مال پر 5.5 سے کم کر کے 2 فیصد اور مشینری پر ٹیکس 5.5 سے کم کر کے 1 فیصد کیاگیا ہے۔کاروبار میں سہولت اور کاروبار کی لاگت میں کمی کرنے کے لئے سیکشن 21 (1) کی موجودہ حد کو 10000 سے بڑھا کر 25000 کیاگیا ہے۔اسی طرح کاروبار میں ایک اکاﺅنٹ ہیڈ میں حد موجودہ پچاس ہزار سے بڑھا کر اڑھائی لاکھ کردی گئی ہے۔ کم سے کم تنخواہوں اور اجرت کو15 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کر دی گئی ہے۔ ایک سال میں بیرونی ترسیلات زر کو بینک نکلوانے اور دوسرے بینک میں منتقل کرنے پر ہر قسم کا ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ٹیکس گزار اور ریفنڈ جاری کرنے والے افسر کے درمیان شفافیت کو فروغ دینے اور ٹیکس ری فنڈ جاری رکنے کے طریقہ کار میں کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے مرکزی انکم ٹیکس ریفنڈ شروع کیا گیا ہے۔حج گروپ آپریٹرز کے لئے انہیں غیر مقامی افراد کو ادائیگی کرتے وقت سیکشن 125 کے تحت ٹیکس کٹوتی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ آٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک موٹرسائیکل پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ افراد اور شراکتی کاروبار کے ود ہولڈنگ ایجنٹ بننے کے لئے فروخت کی موجودہ حد کو 5 کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ کی گئی ہے۔ٹیکس گزار کو معاہدے کے تحت ٹیکس ادا کر کے بے جا مقدمات سے نجات دلائی جائے جس کے لئے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔ بجٹ میں اس وقت ٹال (toll) مینو فیکچرنگ کیلئے ٹیکس کی شرح جو 8 فیصد ہے اس شرح کو کمپنیوں کیلئے 4 فیصد اور دیگر کیلئے 4.5 فیصد کر دیا گیا۔ ٹیکس بیس میں وسعت کی غرض سے تجویز ہے کہ بجلی کے اخراجات مخصوص شرائط کے تحت قابل قبول کاروباری کٹوتیوں میں شمار ہوں گے جس میں موجودہ استعمال کنندہ کے مکمل کوائف کا اندراج لازم کر دیا جائے گا۔ایکٹوٹیکس پیئرلسٹ میں شامل ہونے کیلئے ٹیکس گزاروں کے پروفائل کو اپ ڈیٹ کرنے اور اس کی تصدیق کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اس ترمیم کی بدولت ٹیکس گزاروں سے درست ٹیکس وصول کرنے میں مدد ملے گی۔ ودہولڈنگ کے دائرہ کار کو بڑھانے اور اس حوالے سے تمام افراد کے کاروباری لین دین پر نظر رکھنے کیلئے دفعہ 236V کے تحت معدنیات پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کو ایکٹوٹیکس پیئرلسٹ میں شامل افراد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ منافع پر حاصل ہونے والی آمدنی سب کیلئے یکساں 15 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کر دیا گیا۔ بجٹ میں کاروباری آمدن سے ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی لاگت کو منطقی بنانے کے لئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں، اس رجحان کے خاتمے کیلئے غیر ملکی شراکت داروں سے سود کی کٹوتی کو بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق محدود کیا جا سکے گا، عطیات کی نگرانی اور منی لانڈرنگ سے بچنے کیلئے دوسرے شیڈول کی شق 61 کے تحت مخصوص اداروں کو دیئے جانے والے عطیات کو مخصوص شرائط کے ساتھ استثنیٰ دیا گیا ہے،دوسرے شیڈول کی شق 66 کے تحت مخصوص اداروں کی آمدن کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جس کیلئے دفعہ 100C کے تحت 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی مطلوبہ شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، اس کا اطلاق یکم جولائی 2021ءسے ہو گا۔ غیر منافع بخش تنظیموں، ٹرسٹس اور فلاحی اداروں کیلئے لازمی کر دیا گیا ہے کہ وہ 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کے حصول کیلئے سابقہ ٹیکس سال کے دوران حاصل ہونے والے رضا کارانہ چندوں اور عطیات کے گو شوارے جمع کروائیں۔ اپیلٹ اتھارٹی کی طرف سے اپیل پر فیصلے کے بعد دوسری اپیل دائر کرنے کیلئے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایسی اپیل دائر کرنے سے قبل کمشنر کی طرف سے روکے گئے ٹیکس کے 10 فیصد کے برابر ادائیگی کی جائے گی۔ویلتھ گوشواروں کی نظرثانی کو کمشنر کی اجازت سے مشروط کردیاگیا ہے غیرمنقولہ جائیداد کی فروخت پر ودہولڈنگ کی مد پانچ سال سے کم کرکے چار سال کردیا گیا۔ غیر سکونتی افراد پر رائلٹی کی ادائیگی تکنیکی خدمات کیلئے فیس، انشورنس پریمیم اور دیگر ادائیگیوں کی صورت میں ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہ ہونے کی بنا لاگو ہونے والی 100 فیصد زیادہ شرح واپس لے لی گئی۔ اس وقت شپنگ کے کاروبار سے وابستہ رہائشی افراد کے فرض کردہ انکم سیکشن 7-A کے تحت جون 2020ءتک لاگو تھا مذکورہ سیکشن کی فعالیت کو ٹیکس سال 2023 تک توسیع دے دی گئی۔موجودہ قانون کے تحت ایک شخص جس کی آمدن پر فائنل ٹیکس لگتا ہے اسے آمدن کے گوشوارے دفعہ 114 کی بجائے 115(4) کے تحت جمع کرنا پڑتے ہیں۔ سٹیٹمنٹ کو دفعہ 114 کے تحت گوشوارے کا حصہ بنادیا گیا۔ کمپنیوں کیلئے یہ لاگو شدہ فیصد بڑھا کر 5,000 روپیہ کر دی گئی ہے اور باقی تمام کیسوں کیلئے اسے 2,500 اور باقیوں کیلئے 1,000 رکھی گئی ہے۔بجٹ میں کمشنر (اپیل) کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی لاگو شدہ فیس 2,000 روپیہ ہے۔کمپنیوں کیلئے یہ لاگو شدہ فیس2,000 روپیہ سے بڑھا کر 5,000روپیہ اور باقی تمام کیسوں کیلئے 2,500 روپیہ کر دی گئی۔واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی بجٹ مسترد کر دیا تھا،اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھاکہ مشکل حالات میں عوام کوریلیف دینے کےبجائےان پرمزیدبوجھ ڈال دیاگیا۔گزشتہ روزاپوزیشن جماعتوں‌ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں وفاقی بجٹ کومسترد کر دیا گیا تھا،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پراپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اورآئندہ ہفتےاےپی سی بلانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں