گنجلگ اعداد و شمار کا کھیل نہ کھیلیں !

قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

عوام پر پیٹرول بم گرا تو حکومتی ترجمانوں نے حسب روایت دفاع کیا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو جائز کہتے خطے کے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اب بھی پیٹرول کی قیمت دوسرے ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منگول جب کسی ملک پر حملہ کرتے تو اسے تباہ و برباد کردیا کرتے تھے، کسی بھی ملک کے دفاعی لائن کو توڑنے میں منگولوں کو کمال کا ملکہ حاصل تھا، لیکن ان کی ایک بڑی کمزوری بھی تھی کہ ان کا اپنا دفاع کمزور تھا، اگر پوری طاقت سے منگولوں پر حملہ کیا جاتا تو وہ دفاع نہیں کرپاتے اور پسپا ہوجاتے۔ یہاں منگولوں کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں ہے، لیکن احساس ضرور ہوتا ہے کہ بہت کچھ تباہ و برباد ہورہا ہے اور اس کا دفاع کرنے والوں کو بھی اب پریشانی کا سامنا ہے کہ وہ کن کن اقدامات کو جائز قرار دے کر دفاع کرتے رہیں گے۔
پاکستان میں واقعتاََ وہ سب کچھ پہلی بار ہو رہا ہے، جو اس سے قبل پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پیٹرول کی قیمتوں کا موازنہ پیش کرتے وقت ترجمانوں کو دیگر مثالیں بھی عوام کو دینی چاہیے تھی کہ جیسے پاکستان میں ڈالر کا ریٹ 168.33 روپے ہے، بھارت میں 75.55روپے، بنگلہ دیش میں 85.21ٹکا،افغانستان میں 77.45افغانی اور چین میں 7.07ین ہے۔اس سے معیشت اور مہنگائی کا اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہوگی۔ گنجلگ اعداد و شمار میں پڑنے کے بجائے دو اور دو چار کی بات کرتے ہیں۔جی ڈی پی کے دو اقسام ہیں، پہلی برائے نام جی ڈی پی جس کا حساب سہ ماہی بنیاد پر، دوم حقیقی جی ڈی پی جس کا حساب ایک سال سے دوسرے برس تک کیا جاتا ہے، یعنی جی ڈی پی ملک میں تمام لوگوں اور کمپنیوں کے ذریعہ تیارکردہ ہر چیز کی کل قیمت ہے، نجی و عوامی کھپت، سرمایہ کاری، نجی انوینٹریز، ادائیگی میں تعمیراتی اخراجات و تجارت میں غیر ملکی توازن، جسے سیدھے میں دوہرایا جائے تو جی ڈی پی کسی بھی ملک کی معاشی سرگرمی کی ایک وسیع پیمائش کو کہا جاتا ہے۔ جی ڈی پی کا حساب عام طور پر سالانہ بنیادوں پر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حساب سہ ماہی بنیاد پر بھی ہوتا ہے۔جی ڈی پی فارمولا اجزاء میں ذاتی استعمال کے اخراجات، پلس کاروبار میں سرمایہ کاری کے علاوہ حکومت کے اخراجات جمع (برآمدات مائنس امپورٹس شامل ہیں۔
گروس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کسی مخصوص مدت میں کسی ملک کی حدود میں پیدا ہونے والے تمام تیار سامان اور خدمات کی مالیاتی قیمت ہے۔انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو میں پاکستان کی شرح منفی-1.5ہے، جبکہ بھارت کی 1.9فیصد، بنگلہ دیش کی شرح نمو 2 فیصد،افغانستان کی منفی-3فیصد اور چین 1.2فیصد ہے۔ایک طویل ترین فہرست بھی موجود ہے کہ پاکستا ن میں کن کن اشیا خوردونوش کی قیمتیں دوسرے ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں، فی کس آمدن سالانہ کی شرح کیا ہے، غربت کی حقیقی شرح کتنی ہے، کتنے کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں، کتنے کروڑ بچوں کو تعلیم دستیاب نہیں، کتنے کروڑ انسانوں کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے میں پڑیں گے تو کسی کو بھی جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔
دونوں ایوان کے اراکین کے تنخواہو ں اور تمام صوبوں کے ممبران کو دی جانے والی مراعات و تنخواہوں کے اعداد و شمار سامنے آئے، جسے ایک عام پاکستانی پڑھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اخراجات میں اتنے صفر ہیں کہ اُسے گننے میں ہی معاشی رگ جواب دے جاتی ہے۔بلوچستا ن کے65 رکن اسمبلی میں فی کس تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار، خیبر پختونخوا کے145رکنی ایوان میں فی ممبر ایک لاکھ پچاس ہزار روپے، سندھ کے168ایوان میں فی رکن ایک لاکھ75ہزار روپے،پنجاب کے 371ممبران میں فی کس دو لاکھ پچاس ہزار روپے،قومی اسمبلی کے 342رکنی ایوان کے فی ممبر کی ماہانہ تنخواہ تین لاکھ روپے جبکہ سینیٹ کے104رکنی ایوان کے فی رکن کو چار لاکھ روپے ماہانہ ملتے ہیں۔اس حساب سے ٹوٹل تنخواہیں فی ماہانہ29,622,5000روپے جب کہ سالانہ 3,554,700,0000بنتی ہے۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کر سالانہ خرچ 85ار ب کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر اراکین ٹیکس بھی برائے نام دیتے ہیں۔
سینٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی سمیت صدر، وزیراعظم، گورنر و وزیر اعلیٰ ہاوسز،ہاؤس رینٹ، گاری، تیل گھر کے بل، فری ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ نیز جب اجلاس منعقد ہوتے ہیں اس کے جتنے اخراجات اٹھتے ہیں، اس کا تصور بھی کسی غریب شخص کو عارضہ دل میں مبتلا کرسکتا ہے۔ عوام کے ساتھ اعداد و شمار کا کھیل مت کھیلیں، کیونکہ جس دن عوام نے حساب کتاب شروع کردیا، تو خدانخواستہ جواب دینا بڑا مشکل ہوجائے گا۔
حضرت ابوبکرؓ جب خلیفہ اوّل منتخب ہوئے تو ان کے سامنے نظام و انصرام کے ساتھ خلیفہ کی تنخواہ کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔، جس کا سادہ ترین حل انہوں نے یہ دیا کہ کہ آپ لوگ میری تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کے برابر مقرر کر دیں، اس پر ساتھیوں نے عرض کہ جناب مزدور کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے اس پر آپ کا گزارہ نہیں ہو گا،تب اسلامی تاریخ کے اس سب سے پہلے اور بڑے حکمران نے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ تاریخی جملہ کہا اور ایک اسلامی حکومت کے بجٹ کا فیصلہ بھی کر دیا کہ پھر مزدور کی تنخواہ بڑھا دی جائے اس طرح میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی اور میری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔یہ بڑا سیدھا سادہ فارمولا ہے، عنان حکومت کے ارباب اختیار جس دن اپنی تنخواہ و مراعات ایک عام مزدور کے برابر کردیں گے تو اس دن ریاست مدینہ کی جانب پہلا بنیادی قدم اٹھا لیا جائے گا۔ جب تک عام محنت کشوں کے مسائل و مشکلات کا ادارک نہیں ہوگا تو اُس وقت تک انصاف و فلاح ملنا ممکن نہیں۔
ویسے تو ان گنت مثالیں ہیں،جیسے لکھنے لگوں تو صفحے کم پڑ جائیں۔ قوم سے اعداد و شمار کا کھیل کسی بھی حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے گھر میں عزت کی دو وقت کی روٹی ہی کھانا چاہتا ہے۔ خالی خزانہ عوام نے نہیں، بلکہ اُن لوگوں نے کیا، جنہوں نے ان پر اعتماد کرکے ایوانوں میں بھیجا، ان کے زیر سایہ کرپٹ بیورو کریٹ نے خزانہ لوٹا، کرپشن کی سزا کو باعث عبرت بنا دیں، عوام کو ان کا حق دیں، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں