” قومی زبان ،تہذیب و تمدن کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری”—–تحریر خدیجہ مرزا

اگربغداد کی تاریخ کے پنوں کو پلٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بغداد تعلیم کا مرکز تھا، ایک طرف یورپی باشندے جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے تو دوسری طرف مسلمان ہر میدان میں اپنی صنعتیں کھول کر بیٹھے تھے۔ کیونکہ سارے فیصلے ان کی اپنی زبان میں ہوتے تھے،دوسری کسی زبان کو فوقیت نہیں تھی۔ فارسی اور عربی مقامی اور قومی زبانیں مسلمانوں کا اثاثہ تھیں۔ اپنی تہذیب تھی اپنی روايات تھیں۔ آہستہ آہستہ مسلمان فرقوں میں بٹ گئے،سُنی کی خواہش ہوتی کہ شیعہ کو جھوٹا ثابت کیا جائےاور شیعہ کی اس کے برعکس۔ لوگوں نے ایک دوسرے کو فرقوں کی بنیاد پر برا بھلا کہنا شروع کیا، ایک طرف ان کے درمیان دراڑ پڑی تو دوسری طرف دشمن ان کے تعاقب میں تھا کہ کب ان کا ناموں و نشان صفحہ ہستی سے مٹایا جائے۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کو اپنے گھوڑوں کے سُموں تلے روند دیا، تاریخ دان لکھتے ہیں کہ دریائے فرات کا پانی سُرخ ہو گیا تھا۔ مسلمان سپہ سالارمعتصم باللہ کو دردناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔
ایسی ہی کچھ تاریخ برِ صغیر کی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر کے لوگ بنا کسی خوف کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی اپنی روایات تھیں، اپنی تہذیب تھی، اپنا طرززندگی تھا۔پوری دنیا کاجی ڈی پی ( GDP(24 فیصد بر صغیردیتا تھا۔کوئی اختلاف نہیں تھا، حتٰی کہ بادشاہ اکبر کے 9 رتنوں میں آدھے سے زیادہ تو ہندو تھے۔ قومیت پسندی نہیں تھی، صرف انسانیت پسندی تھی۔ریشم، چائے اور رنگ کا سامان زیادہ تر یہاں سے ہی دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا تھا اور برصغیرکوسونے کی چڑیاکہا جاتا تھا اس کو، آخر کار ١٩٠٤ میں انگریز یہاں تجارت کی غرض سے آیا اور آہستہ آہستہ وہ ان کے عادات و اطوار سے آشنا ہوتا گیاپہلے اپنے ٹیکس معاف کرواکرمراعات لیں۔
١٧٥٧ کی جنگِ پلاسی کے بعد فرنگی مکمل طور پر برصغیر پر قابض ہو گئے۔ انہوں نے بھی سب سے پہلے یہاں کے لوگوں کے اندر تفرقات پیدا کیے پھر ان کی ثقافت کو نشانہ بنایا، کیوں کہ وہ بھی جانتے تھے کہ صرف ایک ہی طریقہ ہے ان پر غالب آنے کا اور وہ یہی ہے کہ ان کے اندر پھوٹ ڈال دی جائے، یہ ایک دوسرے کو ہندو اور مسّلم جیسے القابات سے یاد کریں۔فرنگیوں نے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” والے اصول پر عمل درآمد کیا اور برصغیر کے اندر ہندو اور مسّلم فرقے بنا دیئے، جو پہلے صرف انسان تھے اب ایک ہندو تھا اس کے اپنے علیحدہ خیالات تھے اپنی علیحدہ پہچان تھی۔ اور دوسرا مسلمان تھا۔ ایک بھگوان کو مانتا تھا تو دوسرا اللہ‎ کو۔آخر کار فرنگیوں نے اپنی حکومت قائم کی، اپنی زبان کو متعارف کروانے کے لئے انہوں نے نوکریاں پیدا کیں اور اس کے اہل وہ ہی تھے جو فرنگی زبان جانتے تھے۔ عوام کومجبوری کے تحت فرنگیوں کی زبان اور تہذیب سیکھنا پڑی،اس طرح انہوں نے برصغیر کے باسیوں کو تبدیل کردیا رنگ و نسل سے تو محض برصغیر کے نظر آتے تھے لیکن سوچ اور تخیل کے لحاظ سے وہ خالص فرنگی تھے۔انگریز نے نہ صرف برصغیر پر قبضہ کرکے یہاں کے لوگوں کو غلام بنایابلکہ سوچ کی سمت بھی تبدیل کردی۔یہی وجہ ہے کہ آج ٧٠ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باو جود ہم جسمانی لحاظ سے تو آزاد ہیں لیکن ذہنی لحاظ سے نہیں۔ہم نے اپنی تہذیب سے منہ موڑلیا اپنی زبان کو اہمیت نہ دی ہم اغیار کی راہ پر چل پڑے جسکی وجہ سے آج ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں نہ تو ہم مکمل طور پر پاکستانی ہیں اور نہ ہی فرنگی ،یہی ہمارے زوال کی وجہ ہے.ہمیں ہمارے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا اپنی مادری زبان ،تہذیب و تمدن کو اہمیت دینا ہو گی ورنہ ہماری داستان نہ ہوگی داستانوں میں،کیونکہ آج نوجوان نسل مغرب پرست ہو چکی ہے مغربی کلچرانکے ذہنوں پر سوار ہے،اپنی مادری زبان سے اکتاہٹ محسوس کی جاتی ہے،میں کسی طورکسی زبان کی مخالف نہیں ہوں ہمیں انگریزی سمیت دیگر زبانیں سیکھنی چاہیے اگر مجبوری ہے تو انگریزی لباس بھی پہننا چاہیے مگر اہمیت اپنی زبان کو اور اپنے قومی لباس کو دینا ہوگا نوجوان نسل کو مغرب فوبیا سے باہر نکال کر یہ بتانا ہوگا کہ ہمارا کلچرکس قدر خوبصورت اور خالص ہے،ہماری قومی زبان کس قدر وسعت رکھتی ہے کس قدر شیریں ہے ہمیں اپنے تہذیب و تمدن کو فروغ دینا ہوگا ہمیں آنے والی نسل کو اپنے ورثے سے آگاہی دینا ہوگی تبھی کامیابی کی راہ پر چل کر ہم منزل کو پائیں گے،اس میں بھاری ذمہ داری مائوں اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ نوجوان نسل کو راغب کریں اور مغرب فوبیا سے نکالنے کےلئے اپنے کلچر اپنی زبان کو اہمیت دیں
تاکہ ہم نہ صرف اپنے ورثے کا تحفظ کرسکیں بلکہ اسے آئندہ نسلوں میں بھی منتقل کرنے کےلئے اپنی ذمہ داری احسن انداز میں نبھائیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں