کورونا وائرس، سکولوں کی بندش سے4 کروڑ چھوٹے بچے حصول علم سے محروم ہیں،یونیسیف

نیویارک(سی این پی) اقوام متحدہ کے بچوں کے حوالے سے ادارے (یونیسیف) نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں سکولوں کی بندش سے 40 ملین (4 کروڑ)چھوٹے بچے حصول علم سے محروم ہیں۔یہ بات یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریتا فور نے ایک بیان میں کہی۔انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے اکثر ملکوں میں تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے دوسروں کے علاوہ 4 کروڑ ایسے بچے بھی تعلیم سے محروم ہیں جنھوں نے اپنے تعلیمی کیریئرکا آغاز کرنا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی دیکھ بھال اور ابتدائی بچپن کی تعلیم ایسی بنیاد بناتی ہے جس پر ان کی نشوونما کا ہر پہلو انحصار کرتا ہے، تاہم کورونا وباء نے اس بنیاد کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔یونیسیف کا کہنا ہے کہ تمام بچوں کو پیدائش سے لے کر سکول کی پہلی جماعت میں داخلے تک سستی اور معیاری چائلڈ کیئر تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ رپورٹ میں ایجنسی بچوں کی دیکھ بھال اور ابتدائی بچپن کی تعلیم کی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے حکومتوں اور آجروں کے لیے رہنما اصول پیش کر رہی ہے جن میں معیاری و سستے چائلڈ کیئر مراکز کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یونیسف نے ایک مختصر تحقیق شائع کی ہے جس میں عالمی سطح پر بچوں کی نگہداشت اور ابتدائی بچپن کی تعلیم کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں اس اہم رکاوٹ کورونا کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان اہم خاندانی خدمات کو وسیع پیمانے پر بندش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تحقیق کے مطابق لاک ڈائون نے بہت سارے والدین بچوں کی دیکھ بھال اور ملازمت میں توازن پیدا کرنے کی تحریک بھی پیدا کر رکھی ہے،یہ ایسی صورتحال ہے جو ان خواتین پر بہت بڑا بوجھ ڈال رہی ہے جو اوسطاً مردوں کی نسبت دیکھ بھال اور گھریلو کام پر تین گنا زیادہ خرچ کرتی ہیں۔غریب ممالک میں لاک ڈائون نے چھوٹے بچوں والے بہت سے خاندانوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے جن کے لیے سکول متعدد خدمات کا ماخذ ہیں جن میں معاشرتی ، جذباتی اور علمی مہارتوں کی نشوونما بھی شامل ہے۔اس مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ 54 کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تقریبا 40 فیصد بچوں کی عمر تین سے پانچ سال کے درمیان ہے جو اپنے گھر کے کسی بھی بالغ شخص سے معاشرتی،جذباتی اور علمی فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے ۔لاکھوں والدین خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے صرف ایک ہی آپشن ہے جس کے پاس معاشرتی تحفظ کی کوئی شکل دستیاب نہیں وہ اپنے چھوٹے بچوں کو کام پر لائیں، افریقا میں 90 فیصد سے زیادہ اور ایشیا و بحرالکاہل میں تقریباً 70 فی صد خواتین کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں