علامہ اقبال کی ذہنی اور فکری تشکیل میں قیام یورپ کے اثرات ۔۔۔۔طا لب حسین ہاشمی

علامہ اقبال کی ذہنی تشکیل میں جو عوامل موثر رہے ان میں یورپ کاقیام بہت اہمیت کا حامل ہے۔”١٩٠٥ء سے ١٩٠٨ء تک علامہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جو انہوں نے یورپ میں بسر کیا۔گو وہاں انھیں شاعری کے لئے نسبتاًکم وقت ملا اور ان نظموں کی تعداد جو وہاں کے قیام میں لکھی گئیںتھوڑی ہے، مگر ان میںایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے”۔(١)”گو شعر گوئی کی مقدار کم ہو گئی ہے لیکن جو فکر و احساس اقبال یورپ سے لے کر آئے تھے وہ کبھی نظم میں اور کبھی نثری مضمون کی صورت میںڈھل کر منظر عام پر آ رہا تھا”۔ (٢)علامہ اقبال کا یورپ میں قیام کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے کلام میں سنجیدگی آتی گئی، ان کے موضوع سنجیدہ ہوتے چلے گئے۔” قیام یورپ کے دوران اقبال میںجو سب سے بڑا انقلاب آیا، وہ ان کا وطنی قومیت اور فلسفہ و تصوف سے متنفر ہو کر ذہنی اور قلبی طور پر اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا تھا، یہ انقلاب ان میں کیوں کر اور کب وقوع پذیر ہوا؟ اس کا جواب مختلف مراحل کے تاریخ وار تعین سے دینا تو ممکن نہیں، تاہم اس بارے میں اقبال کی بعض تحریروں اور اشعار میں اشارے ضرور موجود ہیں، ویسے انگلستان میں انہیں قریب سے جاننے والوں کی تحریریں بھی ہماری کوئی خاص رہبری نہیں کرتیں۔ میک ٹیگرٹ کے بیان کے مطابق کیمبرج میں قیام کے دوران وحدت الوجود کے قائل تھے”۔ (٣)”اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے ، ان تین سالوں میں سے دو سال ایسے تھے جب میں میرا بھی وہیں قیام تھا اور اکثرملاقات کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے، میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں ہے جسے ترک کرنا چائییے بلکہ اُن کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہماری کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے، اس لیے ایسی مفید خدادادطاقت کو بے کار کرنا درست نہ ہو گا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادۂ ترکِ شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترکِ شعراختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لئے شاعری چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں، وہ ان کے لئے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لئے بھی مفید ہے ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا اس کا تو یوں خاتمہ ہوا۔مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعہ اظہار ِ خیال بنالیا”۔(٤)
”مندرجہ ذیل اقتباس میں سر عبدالقادر نے اقبال کے یورپ کے قیام کے دوران کے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے آنے والے دنوں میں نہ صرف اردو کی شعری روایت میں اضافہ ہوا بلکہ برصغیر کی سیاست پر بھی دوررس نتائج مرتب ہوئے ایک اور بات جس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، وہ ان کی نظموں کا مخصوص رنگ ہے جو قیام یورپ کی دین ہے، یہ نظمیں بانگ درا میں حصہ دوم کے تحت آئی ہیں”۔ (٥)
”قیام یورپ کے دوران اقبال کو مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور انھوں نے اس مشاہدے اور مطالعے سے دور رس نتائج اخذ کیے اور پھر وہ مغربی تہذیب کے ایک مضبوط نقاد کے طور پر سامنے آئے۔ اس تین سالہ قیام کے دوران میں ان کے مطالعے میں وسعت پیدا ہوئی، اور انہیںایک وسیع تناظر میں غور و فکر کا موقع ملا۔ انگلستان اور جرمنی میں قیام کے دوران میں ایسا لگتا ہے کہ وہ جرمن قوم اور جرمن فلسفے سے زیادہ متاثر ہوئے۔ انگلستان میں قیام کے دوران انھیں میکٹے گارٹ، پروفیسر برائون، نکلسن، جیمز وارڈ وغیرہ ہم جیسے اہم مفکرین سے ملاقات کا موقع ملا لیکن انھوں نے سب سے زیادہ اثر جرمنی کے شاعر نطشے سے قبول کیا۔ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ اقبال سے رومی کا پہلا تعارف بھی نطشے کے حوالے سے ہوا۔ اقبال نے اپنے انسان کامل کے تصور کی تشکیل میں بہت سے اجزائے ترکیبی نطشے کے سپر مین سے اخذ کیے”۔
(٦) مشرق کی عظمت رفتہ کے دوبارہ احیا اور مشرق کی قدامت کو مغربی جدت سے ہم آہنگ کرنے کے تصورات نے بھی جنم لیا۔ ان کی شاعری میں حرکت و عمل کا پیغام بھی اسی جگہ سے شروع ہوا، انھوں نے اپنا فلسفۂ زندگی مرتب کیا۔ ان اشعار کو ہم اقبال کے یورپی اثرات سے آزاد ہونے اور مشرقی روح کو دوبارہ تازہ کرنے کے مشن کا آغاز کہہ سکتے ہیں۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو !خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدا ر ہوگا
( کلیات اقبال، ص ١٦٧)
علامہ اقبال جب ١٩٠٥ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مقصد لے کر یورپ روانہ ہوئے تو اس سے ایک ابھرتے ہوئے قومی شاعر کی حیثیت سے معروف ہو چکے تھے ، اس وقت تک ان کی ذہنی، فکری اور تخلیقی کاوشوں کا محور مندرجہ ذیل موضوعات تھے۔
(١) مناظر فطرت کے مشاہدات کا تاثر۔(٢) حب وطن اور ارباب وطن سے عقیدت۔(٣) عقل اور عشق، دل اور دماغ کی باہمی آویزش۔(٤) تصوف اور نظریۂ وحدت الجود۔(٥) اسرار حیات کا تجسس ”۔ (٧)
قیام یورپ کے زمانے میں اقبال نے بہت کم شاعری کی، ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ اپنے تعلیمی مشاغل میں ہمہ تن مصروف تھے اور دوسری وجہ یہ کہ وہ روایتی شاعری کو بے کار محض خیال کرنے لگے تھے، بعد میں جب شیخ عبدالقادر اور پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے انھوں نے شاعری ترک کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا تو انھوں نے ایسے شعر کہنے کا عزم کیا جن کا کوئی مقصد ہو اور جن سے قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے، یورپ میں قیام کے زمانہ میں ایک طرف انھیں مغرب کے سیاسی افکار کے مطالعے کا موقع ملا اور دوسری طرف اسلامی ممالک کی تباہی اور زوال کا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا چنانچہ ان کے افکار و نظریات میں بڑی دوررس تبدیلی واقع ہوئی، انھیں پتا چل گیا کہ زندگی جہد مسلسل کانام ہے جبکہ مسلمان اجتماعی طور پر خواروزبوں حال تھے اور غلامانہ ذہنیت کا شکار ہو رہے تھے، اقبال نے ان حالات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی جو مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی کا باعث بنے، اس کاوش نے ان پر مغربی اقوام کے ان حربوں کو واشگاف کیا جو انھوں نے مشرقی اقوام کو غلام اور محکوم بنائے رکھنے کے لئے وضع کیے تھے، ان حربوں میں سب سے مہلک اور خطرناک حربہ وطنیت اور قومیت کا مغربی نظریہ تھا۔ اس نظریے نے مسلمانوں کو آپس میں تعصب میں مبتلا کر دیا تھا اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔ چنانچہ اقبال جغرافیائی حد بندیوں پر مبنی وطنیت کے نظریے سے متنفر ہو گئے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیت کی تشکیل جغرافیائی حدود، نسلی امتیاز اور زبان کے اشتراک پر نہیں ہوتی بلکہ عقیدے، نظریے اور مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے اور قومیت کا یہ نظریہ صرف اسلام میں موجود ہے، انھوں نے بلاد اسلامیہ، حضورِ رسالت مآب میں لکھ کر یورپی اقوام کی مسلمان دشمنی کا پردہ چاک کیا، خطاب بہ جوانانِ اسلام، شعاع آفتاب، نوید صبح اور فاطمہ بنت عبداللہ جیسی نظموں میں اقبال نے یاس میں کھوئی قوم کو امیدفر دا یاد دلائی ہے اور ان کے عزم کومہمیز کیا ہے،شمع اور شاعر اور خضرِراہ میں اس دور کے حالات کا تجزیہ اور تصویر کشی کی ہے اور ١٩٢٣ء کے لگ بھگ ”طلوع اسلام” لکھ کر ملت اسلامیہ کی نشاةِ ثانیہ کی نشاندہی کی ہے”۔ (٨)
مسلماں کو مسلماںکر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
o
کتاب ملّت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و برپیدا
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
( کلیات اقبال ، ص ٢٩٧۔٢٩٨)
اس دور میں اقبال کی فکر کا محور اسلام بن چکا ہے۔ صدیق، بلال اور جنگ یرموک کا یاک واقعہ سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے اقبال کی شیفتگی مترشح ہے۔ شفا خانہ حجاز مین وہ سر زمین حجاز مین مرنے کی تمنا کرتے ہیں اور ، میں اور تو، میں حضور اکرم ۖ سے لطف و کرم کی التجا کرتے ہیں۔اقبال نے قیام یورپ کے اثرات کے تحت قوم کا اپنا نظر ٔیہ زندگی تبدیل کرنے کی، جن مظاہر فطرت کو اس سے قبل وہ اسرار حیات سے آگاہی حاصل کرنے کا ذریعہ بتاتے تھے اب ان کے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان مظاہر کی معنویت ان کی ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی، چنانچہ چاند تارے میں وہ مظاہر فطرت کے حوالے سے جہد مسلسل کے نظریے کی وضاحت کریں”۔ (٩)

جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
اس رہ مقام بے محل ہے
پوشید ہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
( کلیات اقبال، ص ،١٤٥)
”اسی طرح ان کی نظم” کوشش ناتمام “بھی اسی پیغام کی حامل ہے، اقبال کو ان کے مخالف فرقہ پرست بھی کہتے ہیں لیکن ان کا رجحان اسلامی تعلیمات کی طرف ان کی ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھا جہاں وہ بہت غور و فکر کے بعد پہنچے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے چنانچہ انھوں نے یورپ کے قیام کے دوران اپنی شاعری کو ایک پیغام کی صورت دینے کا ارادہ کیا تاکہ بنی نوع انسان اسلام کے طفیل اپنے مصائب سے نجات پا سکے” ۔ (١٠)” یورپ میں تین سالہ قیام کے دوران اقبال کی زندگی میں جذباتی پہلو کے اعتبار سبھی تغیرات آئے۔ انگلستان میں ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی جو وہاں ان دنوں قیام پذیر تھیں۔ اس کے بعد جرمن میں وہ اپنی جرمن زبان کی استاد مس ایما ویگے ناسٹ سے متاثر ہوئے۔ جن کے بارے میں انھوں نے ایما ویگے ناسٹ کو اپنے خط (لندن، مورخہ ٢٠۔ اکتوبر ١٩٣١ئ) میں سال ہا سال کے بعد لکھا تھا کہ میں ہائیڈل برگ کے وہ ایام کبھی فراموش نہ کر سکوں گا، جب آپ نے مجھے گوئٹے کا “فائوسٹ” پڑھایا”۔ (١١) اقبال کے حوالے سے لکھی جانے والی کئی کتابوں میں اس سلسلے میں مفصل بحث موجود ہے جن میں اقبال از عطیہ فیضی، اقبال یورپ میں از سعید اختر درانی، عروج اقبال از افتخار احمد صدیقی اور کئی دوسری کتب قابل ذکر ہیں، چنانچہ ہم اقبال کے قیام یورپ پر بحث سمیٹتے ہوئے اقبال پر ایک اور حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ یہ پہلو پین اسلام ازم کا ہے جس میں ان کے پیش روجمال الدین افغانی ہیں۔ اقبال کا یہ قول ہے۔ ” یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا”۔(١٢)یورپ کی مادہ پرست تہذیب اور لا دین سیاست کے محرکات و نتائج کے گہرے مطالعے نے اقبال کے خیالات میں “انقلاب عظیم” پیدا کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس ذہنی انقلاب کے بعد اقبال کے جذبات و خیالات کا رخ وطنیت سے ملت یا بین الاقوامیت کی طرف مڑ گیا۔ اسی دور کی بعض نظمیں اصلاً ”شیخ عبدالقادر کے نام” ) ان کے اس جدید نصب العین کی نشان دہی کرتی ہیں۔ مارچ ١٩٠٧ء کی غزل ( “زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا”) ان کہ ذہنی انقلاب کا واضح ثبوت ہے”۔ (١٣)یورپ میں قیام اقبال کی ذہنی تشکیل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نوجوانوں کی اصلاح بھی چاہتے تھے۔ ان کی خفتہ صلاحیتوں کو جگانا چاہتے تھے۔ یورپ سے واپسی پر اقبال کی شاعری کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا وہ اب مذہب اسلام کو ساری دنیا کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی شد و مد سے تبلیغ کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں