کراچی بارشیں،سیاسی پنڈتوں کا پردہ پاش۔۔۔صائمہ رانا

حالیہ بارشیں پورے ملک میں جاری ہیں اور بارشوں نے شہر کراچی کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ، مختلف علاقوں میں لوگ نقل مکانی کر نے پر مجبور ہیںوہی بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں پر بارشوں کا کئی فٹ پانی کھڑا ہے، رہائشی علاقوں کے علاوہ کاروباری علاقوں میں بھی کئی کئی فٹ پانی موجود ہے اور کراچی کی تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے پہلے بھی جب بارشیں ہوئی ہیں شہر کا برا حا ل ہوجاتا ہے پورا شہر دریا کا منظر پیش کرنا شروع کر دیتا ہے اور نظام زندگی درہم برہم ہوجاتا ہے، شہر قائد کی بد قسمتی ہے کہ اس پر حکومت وہ لوگ کر رہے ہیں جو اس شہر کی ترقی میں بالکل بھی کبھی سنجید ہ نہیں ہوئے کراچی پاکستان کے بعد چھوٹے پاکستان کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے وطن کے ہر صوبے اور شہریوں کو پناہ دیتا ہے، شاید ہی پاکستان کا کوئی کونہ یا شہر ایسا ہو جہاں سے لوگ اس شہر میں آ کر روزگار نہ کماتے ہوں ،بلکہ اس شہر نے پاکستان کے چھوٹے چھوٹے قصبوں سے آنیوالوں کو اس شہر میں بڑے بزنس مین بنایا اور اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ملک کا معاشی حب کہلانے والا یہ شہر آج سمند ر کا منظر پیش کر رہاہے، جس کی ساری ذمہ داری صوبائی و بلدیاتی حکومتوں سمیت ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے لیڈر کراچی کے حوالے سے بیان بازیاں تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کسی بھی سیاسی پارٹی نے کراچی کی خدمت نہیں کی، آج کراچی کی عوام شدید مشکلات کا شکار ہے تاریخ گواہ ہے کہ ملک کے کسی بھی کونے میں جب کوئی قدرتی آفت آئی تو کراچی والوں نے دل کھول کرمد د کی ، کراچی سے امدادی ٹرک بھربھر کر پورے ملک میں ضرور ت مندوں کے پاس جاتے رہے ہیں ، سیلابی صورتحال ہو، زلزلہ ہو یا شدید بارشوں سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال ہو ہر مشکل میں کراچی کی عوام نے پورے پاکستان کے لوگوں کی مدد کی ، یعنی کراچی کی مثال اس کاروباری شخصیت کے جیسی ہے جو مشکل وقت میں چھوٹے کاروباری طبقے کو نہ صرف قرضے دیتا ہے بلکہ مالی امداد بھی کرتاہے تو وہ کاروباری شخصیت جو دوسروں کو دل کھول کر دے سکتا ہے اگر وہ ہی مشکل میں آجائے تو اس کی دو صورتیں بنتی ہیں یا تو اس کی قسمت خراب ہے یا پھر کہیں نہ کہیں کوئی کمی یا سازش ہے کراچی کے ساتھ ایک دیرینہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شہر پر حکومت تو ہر کوئی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے مسائل کو کوئی حل نہیں کرنا چاہتا، وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی جان چھڑا لیتی ہے ، صوبائی حکومت تمام ملبہ شہری حکومت پر ڈال دیتی ہے جبکہ شہری حکومت اختیارات اور فنڈ کا رونا روتی رہتی ہے اب سارے معاملے میں شہر قائد کی معصوم عوام پستی رہتی ہے، دنیا کے جس بھی شہر میں سب سے زیادہ کاروبار ہو اور جو شہر سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہو ریونیو پیدا کرتا ہو، فیکٹریاں اور کارخانے ہوں وہاں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ جد ید ٹیکنالوجی اور جدید سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ اس شہر میں نظام زندگی خراب نہ ہو لیکن پاکستان میں سسٹم الٹا ہی چلتا ہے ، شہری بارشوں کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور حکومتیں انہیں بچانے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہی ہیں ، کراچی کی عوام کو بھی جاگنا ہوگا اور دیکھنا ہو گا کہ آج ہم جس صورتحال کا شکار ہیںاس کے پیچھے کیا وجہ ہے اگر تو اس شہر کے لوگوں کا نصیب خراب ہے توہمیں اس نصیب کو سدھارنے کے لیئے کچھ کرنا ہوگا اور اگر کراچی کسی سازش کا شکار ہے تو کراچی کے باسیوں کو اپنے شہر کو اس سازش سے نہ صرف بچانا ہے بلکہ ان سازشی عناصر کو بے نقاب کر کے انصاف کے کٹہرے میں بھی لانا ہوگا، کیونکہ کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، بارشوں کے پانی میں ڈوبا ہوا شہر کسی ایک حکومت یا ادارے کی لا پرواہی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک دن کی غفلت کانتیجہ ہے شہرقائد کو گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں نے تباہ ہ و برباد کیا، صوبائی حکومت کے وزرا اوران کے حواری(ریونیو ڈیپارٹمنٹ، لینڈ ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سند ھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت تمام وہ ادارے جن کا کام شہری ترقی اور تعمیرات کے ساتھ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے)اداروں میں بیٹھے ہوئے سفارشی اور کوٹے پر بھرتی ہونیوالوں کے ساتھ ملکر شہر کی سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کہ اونے پونے داموں میں بیچ دیتے ہیں ، ندی نالوں پر مکانات بن جاتے ہیں لیکن ادارے کے لوگ رشوت لیکر خاموش ہوجاتے ہیں ، پہاڑیوں کی کٹائی کر کے پلاٹنگ کر دی جاتی ہے، نہ کوئی شہر کی پلاننگ ہے نہ ہی کوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے پالیسی ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے کوئی حکمت عملی نہیں ہے غیر قانونی تعمیرات کو کوئی روکنے والا نہیں بلکہ جن اداروں نے غیر قانونی تعمیرات روکنی ہوتی ہیں وہی غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کی سربراہی یا پشت پنا ہی کر تے ہیں ،گزرتے وقت اور بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ اگر شہر کی باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ادارے اپنا فرض بخوبی نبھاتے اور قبضہ مافیا سمیت دیگر مافیا کو لگام ڈالی جاتی توآج یہ حالات نہ ہوتے ، لیکن شاید اس شہر کی قسمت ہی خراب ہے جہاں سیکرٹری اور چیف سیکرٹری لیول کی پوسٹ پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی کرپشن کر رہے ہیں اور ایک معمولی پٹے والا بھی ، پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا اور ریونیو پیدا کرنے والے کراچی کارہبر کون؟۔اب دیکھنا یہ ہے کراچی شہر کو ان مشکلات سے نکالنے میں وفاق یا صوبائی حکومت میں حقیقی رہبر کا کردار کون ادا کرے گا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں