ففتھ جنریشن وار اورقوم پرست——– عمرفاروق

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے235ویں کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب میں خطے کی صورتحال کے پیش نظرجنگی تیاریوں کو بڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مخالف عناصرکی طرف سے ہائیبرڈ جنگ جاری ہے،آرمی چیف کی طرف سے ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ ففتھ جنریشن وارکاتذکرہ کیاہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ جنگ کتنی خطرناک ہے اوردشمن اس ہتھیارکوکس طرح ہمارے خلا ف استعمال کررہاہے ؟
فکری طور پر منتشر، معاشی بدحالی اور عوام کے ذہنوں میں خلل پیدا کرکے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے عمل کو ففتھ جنریشن وار کہا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا کو اس کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس جنگ کے ذریعے غیر محسوس انداز سے وار کیا جاتا ہے، جسے انسانی بدن کی بجائے افکار و عقائد پر حملہ کیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا کو ففتھ جنریشن وار کا اہم ٹول سمجھا جا رہا ہے، پروپیگنڈا کے ذریعے قومی مورال ڈائون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پہلی چارجنریشن وارکے تمام ماڈلز سے زیادہ سخت ترین یہی ماڈل ہے۔ تعصب، خود پسندی، ذہنی ناپختگی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی کمی، مایوسی نفرت اور تشویش پیدا کرنے کے حربے ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہیں۔
اس نظریاتی جنگ میں قوم پرست اورنام نہادلبرل آگے آگے ہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے اوربھارت اوردیگرملک دشمن قوتیں ہیں تویہ لبرل اورقوم پرست اس کامذاق اڑاتے ہیں مگرحقائق یہ ہیں کہ فاٹاسے لے کربلوچستان تک اورگلگت بلتستان سے لے کرسندھ تک قوم پرست کرائے کے فوجی کاکرداراداکررہے ہیں آئیں ایک قوم پرست کی کہانی اس کی زبانی سنتے ہیں جس میں وہ بتارہاہے کہ اس نے کس سے پیسے لے کرنوجوانوں کوگمراہ کیا؟۔اگرگلگت بلتستان کے قوم پرست رہنما عبدالحمید نے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے پیسے لینے اور نوجوانوں کوگمراہ کرنے پر معافی تو مانگ لی لیکن کیا ان کے معافی مانگنے سے گلگت کے لوگ مطمئن ہو سکیں گے؟کیاجن لوگوں کواس نے گمراہ کیا کیاوہ بھی راست راست پرآجائیں گے ؟یاجن لوگوں نے ملک کے خلاف سازشیں اورنقصان پہنچایااس کاازالہ ہوسکے گا ؟
بلاورستان نیشنل فرنٹ حمید گروپ کا قیام 1995 میں عمل میں آیا تھا اور اس کے بانی عبدالحمید خان سنہ 1999 میں خودساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔انہوں نے مختلف ملکوں میں 20 سال گزارنے کے بعد آٹھ فروری 2019 کو غیر مشروط طور پر خود کو پاکستانی سکیورٹی حکام کے حوالے کر دیا تھا۔اب تقریباڈیڑھ سال بعدچنددن قبل نو ستمبر کو انہوں گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یہ معافی مانگی ہے ۔
بلتستان نیشنل فرنٹ نواز خان ناجی اور عبدالحمید خان نے مل کر بنائی تھی۔ نواز خان ناجی نے سیاست اور عبدالحمید خان نے انتشار کا راستہ اپنایا اور یوں ان کے راستے الگ ہو گئے۔عبدالحمید خان نے ساتھیوں سمیت 14 اگست 1997 کے دن بلیک جوبلی منانے کا اعلان کیا 14 اگست 1997 کو قیام پاکستان کے 50 سال مکمل ہو ئے تھے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گلگت بلتستان کوپاکستان سے الگ کرنے کی مہم بھی شروع کی ۔ عبدالحمید خان مئی 1999میں نیپال کاویزہ حاصل کیااور کراچی ائیر پورٹ سے نیپال نکل گئے،اوربعدازاں وہ جرمنی چلے گئے ۔
عبدالحمید خان کے نیپال میں را کے ایک ایجنٹ سے معاملات طے کر کے ہندوستان اور پھر را کے نیٹ ورک سے پیسے لے کر 20 سال تک گلگت بلتستان میں نوجوانوں کو پاکستان سے متنفر کرنے کی سازشوں میں مصروف رہے۔عبدالحمید خان کا کہنا ہے کہ وہ را کے چیف کے ساتھ بھی ملاقات کر چکے ہیں اور را کی خواہش تھی کہ عبدالحمید خان کے ذریعے گلگت بلتستان میں تخریب کاری کے لیے نیٹ ورک منظم کیا جا سکے، جس کے لیے بھارت کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحد پر ریڈیو سٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں سے پاکستان کے خلاف منفی اور زہریلا پروپیگنڈا تواتر کے ساتھ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان سے متنفر کیا جا سکے۔
عبدالحمیدکی یہ کہانی واضح کررہی ہے کہ ووہ ففتھ جنریشن وارکاحصہ تھے اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ریاست کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوںکوبھی پروان چڑھایاویسے ہرقوم پرست کے پیچھے کسی ناکسی کاہاتھ ہے منظورپشتین سے لے کرمحسن داوڑتک ،گلالئی سے فرزانہ باری تک مکمل چھان بین کی جائے تواسی طرح کے حقائق منظرعام پرآئیں گے۔ جس طرح کے انکشافات عبدالحمیدخان نے کیے ہیں ،ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے والوں کو عام معافی اور فراری کمانڈرز کے ہتھیار ڈالنے کی کوریج قومی میڈیا کے ذریعے کی جاتی رہی اور پاکستان بھر میں ریاستی اداروں کے اس اقدام کو سراہا گیا لیکن مقام حیرت ہے کہ اپنے کیے پر ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے والے عبدالحمید خان کو اس عمل(پاکستان زندہ باد) پر لعن طعن کر رہے ہیں۔
پاکستانی عوام باشعورہوچکے ہیں اورگلگت بلتستان کے عوام عبدالحمیدکے جرائم کومعاف کرنے کوتیارنہیں وہ کہتے ہیں کہ عبدالحمید خان نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ را سے پیسے لیتے رہے ہیں۔ ان کو ایسے باعزت لا کر گلگت بلتستان میں بٹھانا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ اپنے حق کے لیے بولنے پر بابا جان جیل میں اور انڈین ایجنسی را کے ہاتھوں کھلونا بننے والا قانوں کی گرفت سے آزاد ہے۔یہ وہ انسان ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کے گھر اجڑ گئے۔ لوگوں پہ غداری کا داغ لگا اور ان کے پاسپورٹ بلاک ہو گئے۔
ان کے جواب میں عبدالحمید خان کے بیٹے عبدالمجید خان شیر جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں اور روس میں مقیم ہیں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ویڈیو میں ان کا کہنا ہے کہ میرے والد نے جیلیں کاٹی ہیں۔ کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا جو اصل قوم پرست ہیں وہ ان کے خلاف کچھ نہیں بولتے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ جہاں تک زندگیاں برباد کرنے کا تعلق ہے۔ میرے والد نے کسی کی زندگی برباد نہیں کی۔ بلکہ لوگوں کی زندگیاں سنور گئی ہیں۔ ان کا ساتھ دینے والے ہر میدان میں آگے ہیں، کوئی قانون کے میدان میں کوئی سیاست اور صحافت کے میدان میں۔انہوں نے سوال کیا کہ جو لوگ ان پر بلا جواز تنقید کرتے ہیں وہ جب سختیاں برداشت کر رہے تھے اس وقت ان کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟
یاد رہے اب بلاورستان نیشنل فرنٹ حمید گروپ نیکٹا کی جانب سے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے بلاورستان نیشنل فرنٹ کابی ایل اے اورپشتون قوم پرستوں سے بھی رابطہ تھا پچھلے دنوں بلاورستان فرنٹ کے کئی دہشت گرداورملک دشمن عناصرپکڑے بھی گئے ۔دوسری جانب عبدالحمید خان اوران کے ساتھیوں پر اسلحہ اٹھانے یا مذہبی فسادات کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھی الزام ہے سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور لٹریچر کے ذریعے آزادی کی تحریک تیز کرنے کے لیے منظم طریقے سے مہم چلائی گئی۔اورگلگت بلتستان کوپاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کی گئی۔
ہماری سیاسی قیادت کواپنی ریاست سے مخلص ہوناپڑگا اوران قوم پرستوں کی سازشوں پرنظررکھناہوگی جوپروپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوںکوگمراہ کررہے ہیں ،ان قوم پرستوں کاملک کے لوگوں کو فوج اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کا مقصد کسی بڑے جرم کی پرورش کرنا اور جرائم یا خلاف قانون سرگرمیوں کو پروان چڑھانا ہی تو ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں