ضم شد ہ اضلاع کی ترقی اورپروپیگنڈہ —–عمرفاروق

پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیاجارہایہ پروپیگنڈہ نہ صرف بددیانتی پرمبنی ہے بلکہ حقائق کے بھی منافی ہے ، بلوچستان ہویاقبائلی علاقے ،قوم پرست اورعلیحدگی پسندان علاقوں کی ترقی میں خود رکاوٹ ہیں قوم پرست ایک منصوبے کے تحت حالات خراب کرتے ہیں تاکہ علاقے ترقی نہ کرسکیں کیوں کہ پسماندہ علاقوں میں اگرترقی ہوگئی توان کابیانیہ اورپروپیگنڈہ ختم ہوجائے گا اورجونوجوان ان کے بہکاوے میں آتے ہیں وہ سپلائی ختم رک جائے گی اس وجہ سے وہ ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں امن کی فضاء کوخراب کرتے ہیں اورساراالزام سیکورٹی اداروں پرلگادیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ریاست مخالف عناصر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے دہائیوں سے یہاں اپنے ذرائع استعمال کررہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ان علاقوں میں عدم تحفظ کا احساس دلانے کے لیے ایک منظم ایجنڈے کے تحت ایک فضا تیار کرتے ہیں ،امریکہ اوریورپی ممالک میں بیٹھ کرریاست پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے وہ اپنی قوم کویہ تاثردے رہے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ہم انے آپ کامقدمہ اقوام متحدہ اوردیگرعالمی ادارں میں پیش کردیاہے حالانکہ معصوم لوگوں کہ یہ معلوم نہیں کہ ان کی اس حرکت سے بین الاقوامی ادارے جوپسماندہ علاقوں میں پروجیکٹس کررہے ہوتے ہیں وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اورسرمایہ کاری روکے دیتے ہیں جس کانقصان اس علاقے کی قوم اورریاست کواٹھاناپڑتاہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماء ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی فنڈزمختص نہ ہونے کارونارورہے ہیں دوسری طرف حالت یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے ممبرقومی اسمبلی محسن داوڑنے 2018میں ایک روپیہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں کرایاایسے کرداروں کوریاست پرتنقیدزیب نہیں دیتی ،اس سے قبل ہم نے بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ اورقوم پرستوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کوبے نقاب کیاتھا آج ہم دیکھیں گے کہ کیا واقعی ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے یاپی ٹی ایم منفی پروپیگنڈہ کرکے اپنے مقاصدحاصل کرناچاہتی ہے ۔حکومت کی جانب سے فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے تین سالہ منصوبہ جات کی مد میں 152 ملین روپے مختص کئے ہیں جس میں باجوڑ کیلئے 16، مہمندکیلئے11،خیبر کیلئے23، کرم کیلئے 19، اورکزئی کیلئے 9 ، جنوبی وزیرستان کیلئے11 اور شمالی وزیرستان کیلئے 24 ارب روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں۔261 اسکیموں میں سے 131 سکیموںکی منظوری دے دی گئی ہے۔ آئی ڈی پیزکیلئے 24 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس میں 14 ارب روپے مل گئے ہیں۔ اے ڈی پی کی 232 ارب کی سکیمیں ہیں۔ ضلع مہمند میں سولر ٹیوب ویل اور گرائیوٹی بیس ڈی ڈبلیو ایس ایس کا 201 ملین کا منصوبہ جو مئی2019 میں منظور ہو ا جس میں 41 سکیمیں تھیں،اس کیلئے رواں برس15 ملین مختص جبکہ 7 ملین جاری ہوئے ہوئے ہیں ،41 سکیموں میں سے 17 پر کام ہو رہا ہے،8 سکیمیں نا قابل عمل ہیں اور 16 سکیموں پر جھگڑے ہیں۔قبائلی اضلاع سولر ٹیو ویل اور گریوٹی بیس ڈی ڈبلیو ایس ایس قائم کرنے کے حوالے سے 421 ملین کے منصوبے ہیں جن کی منظوری نومبر2019 کو دی گئی تھی۔ گزشتہ برس 19 ملین جاری کیے گئے تھے۔ رواں برس 60 ملین مختص اور 11 ملین جاری ہوئے۔ کل 40 سکیمیں ہیں،23 پر کام ہو رہا ہے اور 17 سکیمیں تنازعات کی نذر ہیں۔
ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے یہ قومی اتفاق رائے ہے کہ انضمام کے بعد ضم شدہ اضلاع کو فنڈ مہیا کیے گئے کہ علاقے کو ترقی دی جائے، آئی ڈی پیز کو واپس اپنے گھر لایا جا ئے، علاقے کی سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر کیا جا ئے اور نوجوانوں کو بہتر روزگار کے مواقع مہیا کیے جا ئیںیہی وجہ ہے کہ آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے PSDPنے سال 2019۔2020کیلئے 32.5ارب روپے مختص کئے جبکہ سیکورٹی کیلئے بھی 32.5ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ دس سالہ Development Planکی مد میں سال 2019۔2020کیلئے 48ارب روپے رکھے گئے تھے ۔
البتہ پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے پوراملک معاشی ابتری کاشکارہے وہاں ضم شدہ اضلاع پربھی اثرپڑاہے گزشتہ سال کے بجٹ میں جو اعلان کیا گیا تھا اسے پھر سے تبدیل کیا گیا اور Developmentبجٹ جو کہ آئی ڈی پیز کی آباد کاری، صحت اور تعلیم کیلئے مختص تھا اسے کاٹ لیا گیا اور مئی 2020تک 50فیصد فنڈ ہی مہیا کیا گیا ہے۔ ضم شدہ اضلاع میں امن وامان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے آئی ڈی پیز کی Reliefاور Compensationکیلئے جو فنڈ مختص تھا اس فنڈ کا بڑا حصہ یعنی 15.5ارب روپے سیکورٹی کو دے دیے گئے ہیں جبکہ وزیراعظم کے یوتھ پروگرام اور ہنر مند پروگرام سے بھی 5ارب روپے کاٹ کر سیکورٹی کو دے دیے گئے ہیں جسکی کل مقدر ہی محض 10ارب روپے تھی۔
گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ارکان نے افغان بارڈر سے ملحقہ شمالی وزیرستان کا دورہ کیااس کمیٹی کے رکن رمیشن کمارنے دورے کے بعد اپنے تاثرات میںلکھاکہ بدقسمتی سے یہ خوبصورت علاقہ ماضی میں اپنوں کی نظراندازی اور دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے علاقہ غیرکی صورت میں دہشت گردوںکا پسندیدہ ٹھکانہ بھی بنارہا،پاک فوج کی طرف سے اس علاقے کو دہشت گردوں کے تسلط سے چھڑانے کیلئے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد سمیت لگ بھگ 14بڑے آپریشن کئے گئے جن کے نتیجے میں ساڑھے 47ہزار کلومیٹر علاقہ کلیر کراکر ریاست کی رِٹ قائم کردی گئی، اس مقصد کے حصول کیلئے ساڑھے چار ہزار سے زائد جانوں کی قربانی بھی دی گئی ۔ آج اپنے دورے کے دوران میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میںبلاشبہ وزیرستان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے، آج وہاں بہترین سڑکیں نظر آرہی ہیں، لگ بھگ چوبیس بلین روپے پر مختص ترقیاتی منصوبوں میں سے 66 فیصد انفراسٹرکچر بہتر بنانے کی مد میں خرچ کئے گئے ہیں ،
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہاں کے لوگ اور حکومت فاٹا انضمام کے معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ دہشت گردوں کا بنیادی ٹارگٹ سیکورٹی ادارے ہیں اور اس حوالے سے پاک آرمی انسداد دہشت گردی میں مصروف ہے جبکہ دیگر سماجی جرائم کی بیج کنی کے معاملات ڈی سی اور ڈی پی او دیکھ رہے ہیں۔ افغان سرزمین سے ناپسندیدہ عناصر کی آمدورفت کیلئے بارڈر منیجمنٹ سسٹم کا نظام وضع کیا گیا ہے، آسان راستوں پر پہلے باڑ لگائی جا رہی ہے جبکہ دشوار گزار مشکل راستوں پر باڑ لگانا بعد کی ترجیحات میں شامل ہے، میری معلومات کے مطابق 231 کلو میٹر پر محیط شمالی وزیرستان کی افغان بارڈر کے 171کلو میٹر پر باڑ لگا لی گئی ہے جبکہ بقایا پر کام تیزی سے جاری ہے۔بیشتر مقامی لوگوں کے کاروبار اور رشتہ داریاں سرحد کے آر پار ہیں، ان کی خواہش ہے کہ طورخم بارڈر کی طرز پر لوگوں کے آنے جانے کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں