پگڈنڈیاں

ڈاکٹر رابعہ تبسّم
rabiatabassum17@yahoo.com

— ویل ڈن شبانہ—

ابھی میں ہلکی ہلکی غنودگی میں تھی کہ موبائل کی بیل سے آنکھ کھل گئی رات کے گیارہ بج رہے تھے اور اس وقت فون کا آنا جہاں انسان کو زچ کرتاہے وہاں پریشان بھی کرتا ہے کہ اللہ خیر کرے اس وقت کوئی ایمرجینسی ہی نہ ہو لہٰذا فون کو اْٹھانا ضروری ہو جاتا ہے چاہے کوئی اجنبی نمبر ہی کیوں نہ ہو یہی سوچ کر میں نے کال ریسیو کر لی دوسری طرف سے آواز آئی پھپھو جان میں گاؤں سے شبانہ بول رہی ہوں میں سندس کی شادی کر رہی ہوں کل اْس کی رخصتی ہے اور آپ نے اْسے رخصت کرنے ضرور آنا ہے اور دیر سے فون کرنے پہ ناراض نہیں ہونا میرے پاس آپ کا نمبر نہیں تھا ابھی فرحت باجی سے لے کے آئی ہوں اْس نے طمانیت بھرے لہجے میں کہا۔ ساری بات سننے کے بعد میں نے اْسے کہا تسلی رکھو خفا ہونے کی کوئی بات نہیں میں انشائ اللہ ضرور آوئ ں گی۔ بلکہ تمہارا شکریہ کہ تم نے یاد رکھا۔
اْس کے بعد نیند کہاں!یادوں کی پگڈنڈیوں پہ پیچھے کی طرف بھاگتے ہوئے میں زندگی سے بھر پْور قہقے لگاتی چند حسیناؤں کی اْس منڈلی کے پاس جا کے کھڑی ہو گئی جو ایک مشترکہ شغل”چائے”پینے کے لئے اکھٹی ہوتیں(یہ وہ دن تھے کہ جب چائے گاؤں کے لوگوں کے لئے کوئی اجنبی چیز تھی) اور ساتھ ہی ساتھ سویٹر بْنتیں، کبھی کشیدہ کاری کرتیں۔سب میں نمایاں میری پیاری آپا (بڑی بھابھی) ہوتیں۔مسکینہ جان بہن جو کہ ہمارے سامنے والے گھر میں رہتی تھیں ، اْمتل الحکیم بھابھی اور خورشید بھابھی جو میرے کزنز کی بیویاں تھیں۔ خورشید بھابی دست کاری میں تو دلچسپی نہیں رکھتی تھیں مگر اْن کے ماہئے محفل کو گرمانے کے لئے ضروری ہوتے تھے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ بڑی لے سے گاتیں “اس چاہ دا کیسا لٹکا ماہیا بیچ کے آیا پٹکا۔ نی سہیلو چاہ ہووے ہک پیالی چاہ ہووے مٹھی چاہ ہووے” اور اسی طرح کے اور بہت سے گیت۔
میری آپا اور مسکینہ بہن کے درمیان سویٹروں کے نمونوں پہ ڈھکا چھپا مقابلہ ہوتا وہ یوں کہ دونوں جب کوئی نیا نمونہ حاصل کر لیتیں تو ایک دوسرے سے چھپ چھپ کے اْس کو بناتیں مگر صبر اتنا ہی ہوتا کہ آدھے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے دیکھتیں اور دوپٹے کے نیچے چھپایا ہوا سویٹر دکھاتیں اور سب مل کر ایک بھرپورقہقہ لگاتیں۔ پھر رنگ برنگے دھاگوں سے اپنے بچوں کے مستقبل کے تانے بانے بْنتیں۔ مسکینہ بہن کے دو ہی بچے تھے ایک بیٹی اور ایک بیٹا اْن کی تمام گفتگو کا محور اْن کا بیٹا ہی ہوتا محفل لمبی ہو جاتی تو کہتیں بس نی بہنو ! اب میں چلتی ہوں میرا شوکت سکول سے آنے والا ہو گا اْس کو کھانا دینا ہے، دیکھنا یہ کپڑے شوکت پہ کیسے لگیں گے ؟، یہ سویٹر کیسا لگے گا؟یہ سب کہتے ہوئے اْن کے چہرے پہ مامتا کے کے سارے خوبصورت رنگ بکھرے ہوتے۔انہی جھلمل کرتے دنوں میں غم کی پہلی دراڑ اْس وقت پڑی جب بہن مسکینہ شوکت اور شاداں کو اکیلا چھوڑ کر واپس چلی گیئ ں بھابی امتل الحکیم ایک طویل بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور میری آپا نے اپنے خوبصورت ہاتھوں سے کروشیا ایک طرف رکھا ہی تھا واپسی کا بلاوا آ گیا وہ بھی ہمارے دلوں کو ویران کر کے ہمیں روتا چھوڑ کے بہشت نشیں ہو گیئ ں اور بھابھی خورشید کبھی ایک آنگن میں اپنے سنہرے دنوں کو تلاش کرتی پھرتی ہیں کبھی دوسرے۔
بہن مسکینہ کی موت پہ آئے ہوئے سب عزیز رشتے دار جب اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تو شاداں اور اْس کے ابّا کو احساس ہوا کہ یہ خالی گھر تو اب کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے لہٰذا بہت جلد شوکت کی شادی شبانہ سے کر دی گئی مگر شاہد بہن مسکینہ کی روح اپنے شوکت کے بغیر بے چین تھی شادی کے ڈیڑھ سال بعد جبکہ شوکت کی بچی تین ماہ کی تھی وہ اپنی ماں کے ساتھ ابد ی نیند سو گیا۔اب پہاڑ جیسی زندگی تین ماہ کی بچی دنیا کی ہوس بھری نگاہیںآمدنی کا کوئی زریعہ نہیں اور اکیلی شبانہ سب کے دلوں میں ایک ہی سوال تھا کیسے گزرے گی یہ زندگی؟؟؟؟؟؟؟۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ شبانہ کو سرکاری سکول میں کلاس فور کی جاب مل گئی۔اْس نے بہترین طریقے سے اپنی زندگی کو سنوارا بچی کو بہترین تعلیم دلوائی۔گاوئ ں کی سماجی زندگی کو باوقار انداز سے نبھایا۔اور جب رخصتی والے دن میں اْس کے گھر پہنچی تو مجھے لگا کہ جیسے میں کسی ایم پی اے یا ایم این اے ، کی بیٹی کی شادی میں آئی ہوں۔ہر طرف چہل پہل گہما گہمی زندگی کے ہر طبقے سے خواتین شادی میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ کاموں میں ہاتھ بھی بٹا رہی ہیں۔ہر کوئی اْس کی ہمت کی داد دے رہا ہے۔
میں خود جب ایک خانگی مسئلے( جو کہ بہت سے افراد کے لئے پریشانی کا باعث ہے) کی وجہ سے جب ہارے ہوئے قدموں کے ساتھ فریقِ ثانی کے گھر سے شبانہ کے گھر آئی تو اپنے اندر ایک نئی تونائی ،ہمت اور حوصلہ محسوس کیا کہ زندگی کو تو یوں گزرانا چاہئے کہ غم خود ہاتھ جوڑ کے سلام کرے۔اور بیٹی کو یوں پالنا چاہئے کہ ماں کی بات کے آگے سرِ تسلیم خم کرے۔اْسے پتہ ہو کہ اْس کی ماں نے اْس کی خاطر کیا کیا قربانیاں دیں۔ہاں یہ وہی معاشرہ ہے جہاں کچھ نا عاقبت اندیش بیٹیاں عین نکاح کے دن ماں باپ کے سروں پہ خاک ڈال کے گھروں سے نکل جاتی ہیں مگنیاں توڑ دیتی ہیں ، اپنی مرضی آزادی کا حق جتلا کر ماں کے سب حق اور دن کی محنت اور پرورش کی سختیاں بھول جاتیں ہیں اور ماں باپ زندہ درگور ہو جاتے ہیں معاشرے سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔

5 تبصرے “پگڈنڈیاں

  1. This is a real story motivating Females how to survive with honour it is very emotional the reader what is going on. Good work

  2. السلام علیکم
    کہانی بہت خوب صورت اور زبردست انداز میں پیش کی گئی پسند آئی
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

  3. Allah pir kabi kissi ki life me aisay din na laye aor jin logo ki life me aisay din aaye hain.Allah unn sb ko apni saber se saber ata farmaye aor unn sb ko apni fazl wa karam se aisi khushain dain k roye zameen pe aaj tk kissi ko na mili hun. ameen suma ameen

اپنا تبصرہ بھیجیں