انسان، شیطان کے بہکائے ہوئے ہیں ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

ماضی میں کئی دلخراش جنسی زیادتی کے واقعات سوشل میڈیا کی توسط سے ملکی و عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے۔ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈر ز کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ واقعات رونما ہونے پر میڈیا کی تشہری مہم میں شراکت دار تو بن جاتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی کوئی ملزم گرفتار ہوتا ہے، اس کے اگلے دن ہی سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے۔
مدعی اور ان کے اہل خانہ کو قانونی تحفظ نہ ملنے کے باعث کیثر الجہتی دباؤ کا سامنا کرناپڑتا ہے کہ اب تو جو ہوگیا سو ہوگیا، آگے مستقبل کا سوچیں، جو گذر چکا وہ واپس تو نہیں لایا جاسکتا، بلا وجہ دشمنی بڑھانے سے کیا فائدہ، چھوڑیں، اگر آپ نہیں مانیں گے تو (اندھا)قانون اپنا راستہ خود بنالے گا، ویسے بھی یہاں پھر پوچھتا کون ہے، آپ کے اور بھی بچے ہیں، کل کلاں ان کے ساتھ (اللہ نہ کرے) کچھ ہوگیا تو، نا جی نا، بیماری،کوئی انجانی گولی، راہ چلتے کچھ ہوجانا، او جی، اللہ معاف کرے، یہ تو سوچیں ناں کہ پورے خاندان کی جواں بچیوں کا کیا ہوگا، بے شک جی، جو ہوا بہت بُرا ہوا، لیکن بدنامی بھی تو بہت بُری ہوتی ہے، اِن کے رشتے یعنی اَ ن سے رشتے کون کیوں کرے گا،ہمیشہ بدنامی کا طوق گلے میں لٹکا رہے گا، کس کس کو سمجھائیں گے، کن کن سے لڑیں گے، یہ مقدمے لڑتے لڑتے سب کچھ بک جاتا ہے لیکن فیسیں پوری نہیں ہوتی، دو وقت کی روٹی اس دور میں کمانا مشکل ہے، اس پر تھانے کچہری کے چکر لگانا، گواہوں کو راضی کرنا، آنے جانے، کھانے پینے کے خرچے، سب کی فرمائشیں، قرض کے پہاڑ، اُف، اب خود بتائیں، خیر، جو ہوا سو ہوا، اجی مانا غلط ہوا، لیکن اللہ بھی تو اپنے گناہ گار بندے کو معاف کردیتا ہے، تو ہم تو انسان ویسے ہی شیطان کے بہکائے ہوئے ہیں، اگر آپ موقع دیں گے، تو دشمنی بھی نہیں رہے گی اور ہوسکتا ہے کہ بندہ اللہ کے ساتھ ساتھ اُس کے بندوں کی خدمت کرکے اچھا انسان بن جائے، تو سوچیں کہ کتنا بڑا صدقہ جاریہ ہوگا، دنیا و آخرت میں اس کا اَجر ملے گا، نیکی آخرت کا سرمایہ ہے، آپ بھی کمائیں اور دنیا میں بھی سرخرو ہوں، تو پھر دعا خیر کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
یہ سب تصوراتی نہیں بلکہ دید و شنید بھی ہے، راضی نامے کے اس کھیل میں سماجی ٹھیکدار وبعض رشتے دار بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، ان پورے دھندے میں فروعی مفادات مخفی نہیں ہوتے بلکہ وہ جانتے ہیں کہ کچھ بَرسنے پر چند قطرے ان کی جھولی میں بھی گریں گے۔پولیس کے بیشتر تفتیشی افسران اور اہلکار سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں،کیونکہ انہیں صرف ایک کیس کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہونا پڑتا،بلکہ روزانہ کی بنیاد پر ہر قسم کے مقدمات کے ایف آئی آر انہیں تفتیش کے لئے دی جاتی ہیں،جس کا پیٹ بھرنا قانونی تقاضا ہے، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی بنیادی وجوہ میں قابل ذکر مجبوری بھی یہی ہوتی ہے کہ ایک ایک تفتیشی افسر کے پاس سینکڑوں مقدمات ہوتے ہیں، جس کے ضمنی چلان، حتمی چالان، گواہان، شواہد اور وکیل استغاثہ کی خوشنودی سے لے کر کئی مقدمات میں بیک وقت پیشیوں پر حاضری کو یقینی بنانے کے لئے تھانے سے انٹری کروا کر لازمی عدالت جانا پڑتا ہے، انہیں کسی ایک جگہ نہیں بلکہ افسران کے دفاتر، جائے وقوع،جوڈیشنل مجسٹریٹ، ایڈیشنل سیشن جج، سول جج، ڈسٹرکٹ سیشن جج، ہائی کورٹ، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں، انسداد منشیات کی لئے مختص خصوصی کورٹس، یہاں تک کہ سپریم کورٹ تک ’ذاتی‘خرچے پر جانا پڑتا ہے، عدالتوں میں باوردی درست جانا فرض ہوتا ہے، کیونکہ یہاں انہیں روز مرہ کے واقف کار، پیشکار کے پاس پیش ہونے والے حالات کا سامنا نہیں ہوتا۔
یہ معاشرے کے دو ایسے رخ ہیں جس سے کم و بیش کم سب بخوبی آگاہ ہیں، عوام یا ارباب ِ اختیار مدعی و تفتیشی افسران و اہلکاروں کی چابک دستیوں و مجبوریوں کو جانتے ہیں، ایسا نہیں کہ وہ لاعلم ہیں، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی وجوہ سے بھی آشنا ہیں، کہ معاشرے سے جرم ختم نہیں ہوسکتا، انصاف سستا نہیں مل سکتا اور مجبوریوں کے سودے بازیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں تو ان حالات میں کسی بھی جرم کے سزا کاخوف کہاں سے پیدا کیا جائے کہ کچھ ختم نہ ہو لیکن کم توہو جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں