وہ ہمارے مہمان تھے۔۔۔ راجہ فرقان احمد

انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ جوں جوں ترقی کی سیڑھیوں پر قدم رکھا رسم و رواج پر بھی نکھار پیدا کرنا پڑا۔ اپنے آبائو آجداد کے طریقوں کو جدیدیت اور دنیا کے نت نئے قوانین کے مطابق گزارنے کا سلیقہ سیکھا۔ پرانے وقتوں میں کچھ ایسے قانون جس کو اُس وقت روایات کا درجہ حاصل تھا ان میں سے ایک اگر کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے میں پناہ لیتا تو جب تک وہ اُس قبیلے سے خود نہ نکلے اس کو مہمان تصور کیا جاتا، چاہے اُس نے کوئی بڑا جرم ہی کیوں نہ کیا ہو۔مشہور زمانہ سیریل ارتغرل غازی جو تیرہویں صدی کا کردار تھا۔ اس ڈرامے میں بھی یہ واقعہ کئی جگہوں پر عکس بند کیا گیا۔ مگر سٹیٹ کلچر متعارف ہوتے ہی اور خصوصی طور پر Treaty of westphalia جس نے ریاستوں کو خصوصی درجہ دیا۔ امن و امان قائم رکھنے کے لیے مختلف قانون متعارف کروائے گئے اور ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے ریاستی مشینری کا سہارا لیا گیا۔ یہ تمام صورتحال اس بات کی عکاسی بھی کر رہی تھی کہ غلامانہ اور جاگیردارانہ سوچ حالتِ نزاع میں ہے اور جلد ختم ہو جائے گی لیکن درحقیقت ایسا نہ ہو سکا۔
آج ہم اکیسویں صدی میں پہنچ چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران طبقے میں یہ سوچ کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ اُن کی باتوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آج بھی ہم غلام قوم ہیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے بعد چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ ہمارے مہمان تھے اُن کو گرفتار کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ الفاظ سن کر ان کی جاگیردارانہ سوچ اور قانون کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
کیا ہم بارہویں صدی میں بیٹھے ہیں یا اکیسویں صدی میں جہاں بلاول کے مہمانوں پر کوئی قانون لاگو نہیں۔ کیا یہ لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔ کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے جو کچھ قائد کے مزار پر کیا یہ کسی بھی باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا اور جب قانون پر عمل درآمد ہو جائے تو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے یہ لوگ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم مزار پروٹیکشن اینڈ میٹینینس آرڈینینس 1971 کے تحت بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اِس کو نقصان پہنچانے اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی منعقد کرنا قانوناً جرم ہے جس کی سزا تین سال قید تک ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ عدالت ملزم کا سمری ٹرائل رکے فوری سزا بھی سنا سکتی ہے۔
جہاں تک مقدمے کی بات ہے تو اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ یہ قانون کے مطابق ہوا ہے البتہ گرفتاری پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ اگر گرفتارہی کرنا تھا تو ایئرپورٹ سے بھی کیا جا سکتا تھا لیکن صبح 6 بجے گرفتار کر کے اس معاملے پر سوالیہ نشان اٹھا دیا گیا ہے۔ ایک بیانیہ یہ بھی چل رہا ہے کہ آئی جی نے ایف آئی آر درج کرنے اور گرفتار کرنے سے معذرت کر لی تھی لیکن اگر یہ بیانیہ درست ہے تو کیا آئی جی اور پولیس کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ قانون کے مطابق گرفتار کرتے۔ بہرحال جب تک سندھ حکومت اور آرمی چیف کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی اس موضوع پر بات کرنا مناسب نہیں۔ مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان دونوں رپورٹس میں تضاد پایا جائے گا۔
اب ذرا اپوزیشن کے بیانیے کو ہی چانچ لیتے ہیں۔ تقریبا 11 جماعتوں کی اس تحریک کا آغاز گوجرانوالہ میں ایک اچھے جلسے سے ہوا لیکن اپوزیشن کی بدقسمتی ہی سمجھ لیجئے کہ اپوزیشن کے پاس مہنگائی کا ایک بہت بڑا ایشو سامنے ہے لیکن پچھلے کرتوتوں کے باعث اس مسئلہ کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کر پا رہے۔ اپوزیشن عوام کو فی الحال اعتماد میں نہیں لے پا رہی۔ عوام ابھی بھی اپوزیشن سے خفا ہے کیوںکہ عوام کے نزدیک اپوزیشن کی اس تحریک میں اپنے مقاصد زیادہ جبکہ عوامی مسائل کم ہیں۔
حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ عوام کو اپنے مخالف کرنے کے بجائے ان کو ریلیف دے۔ آئے روز مہنگائی میں اضافہ اور اشیائے خوردونوش قوت خرید سے دو ہو چکی ہیں۔ اس حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان خود ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ فی الفور عوام دوست پالیسی نافذ کی جائیں تاکہ غریب عوام کو کچھ ریلیف میسر ہو سکے۔ اپوزیشن کو ذاتی مقاصد کے بجائے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے اور اپنے مہمانوں کو گھر تک ہی محدود رکھیں۔
مزید یہ کہ حکمران اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور اوراس غلامانہ، جاگیردارانہ سوچ اور نظام کا خاتمہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں