“کرتے ہیں یاد اب بھی بتاتے نہیں اُنہیں ” —-عبدالحنان راجہ

کسی قوم کی ذہنی ، فکری اور اخلاقی معیار کو منتخب کردہ قیادت سے جانچا جا تاہے۔ اس میں شک نہیں چار عشرے قبل جو بیج بویا گیا وہ اب تنآ ور درخت کی صورت میں نفرت، تعصب، بہتان ، بد عنوانی ، جھوٹ ، مکر و فریب اور دھوکہ دہی کے پھل دے رہا ہے۔ اقبال کا فلسفہ اور قائد کا فرمان نصابی خوب صورتی اور تقریری شعلہ بیانی کے لیے ہی رہ گیا۔ عوام ہوں یا قائدین کسی نے اس پہ عمل کی زحمت گوار ا نہ کی جس نے ذہنی پستی کو پختہ اور معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا شکار کر دیا، مقام افسوس کہ بظاہر تعلیم یافتہ اور مہذب نظر آ نے والوں کی سوچ اتنی زنگ آ لود کہ ” اگر کھایا ہے تو لگا یا بھی تو ہے” کے پرچارک ، ذہنی پستی کی اور مثال پیش کرنا وقت کا ضیاع ہے مگر یہ سب تسلسل اُس سوچ اور فکر کانتیجہ ہے کہ جو چالیس ، پچاس برس قبل سے پروان چڑھ رہی ہے اور اب یہ اگلی نسل کو منتقل اور پختہ ہو چکی لہذا اس پہ ماتم ہمیں زیبا نہیں ۔ نظام سیاست و معاشرت، تعلیم ومذہب، سماج ،اداروں اور حوالوں کا حشر سب کے سامنے۔ اخلاقیات کے بگاڑ میں الیکڑانک و سوشل میڈ یا نے بھی اپنا حصہ ڈالا ۔ مگر دور زوال میں ایک صدا ایسی سنائی دی کہ جس نے پورے کے پورے نظام کی تبدیلی، تعصب و نفر ت ، فرقہ بندی و مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کی بات کی اپنی تحریر و تقریر سے انتہا پسندی اور تفرقہ و انتشار کی جڑ کاٹی ۔ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی باراُنہوں نے جمہوریت کے نام پر قوم سے ہو نیوالے دھوکہ کو بے نقاب اور ۔ اس نظام بار ے اُن کی تین دہائیاں قبل کی گئی پیش گوئیاں حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہیں۔اور اب صاحبان اقتدار بھی اس نظام کے ہاتھوں یرغمال اور دلی طور پر اس سے با غی نظر آ تے ہیں۔ ان کے نظریات و افکار کی خوشبو چار دانگ عالم کو معطر کر رہی ہے ۔ انسائیکلو پیڈیا آ ف قرآ ن اور حدیث اُن کے علمی مقام کی شاہکار ایک ہزار تصانیف اور قدرت کی عطا کردہ مجددانہ صلاحیتوں کے ساتھ وہ تاریخ علم میں بلند منصب پہ فائز ، دقیق سے دقیق اور جدید موضوعا ت پرسات ہزار سے زائد خطابات ، تحریر و تقریر کا ایسا جامع خال خال ہی ملتا ہے مگر اللہ نے یہ دونوں وصف ان کو عطا کیے۔دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف چھ سو صفحات پر مبسوط فتوی جس کا دنیا کی گیارہ مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تحریر کر کے اسلام اور مسلمانوں پہ دہشت گردی کے لگے داغ کو دھویا۔حجاز اور بلا دعرب کے محققین ، مدرسین اور محدثین اُن کے سامنے زانو تلمذ طے کر تے ہیں اور جامع الازہر کی ہزار سالہ علمی تاریخ میں پہلی بار کسی غیر عرب کی کتب شامل نصاب اور اُن کے شیوخ اور پی ایچ ڈی کے طلبہ علمی اشکال کی گھتیاں سلجھانے کے لیے اکتساب فیض کر تے نظر آ تے ہیں۔قرآ نی تفسیر ، حدیث اور دین میں انکی دلیل حجت اور اُن کی زندگی میںہی اُنکے نظریات و افکار پر دنیا کی مختلف جامعات بشمول پاکستان میں پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے۔ دور فتن میں اُنہوں نے فتنہ خارجیت و ناصبیت کے ساتھ ساتھ اہانت رسول ۖ کی سازشوں کو دلائل سے ناکام اور امت میں پھر سے عشق رسولۖ کی ٹمٹماتی شمع کو روشن اور اقبال کے اس پیغام’ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے ، دہر میں اسم محمد ۖ سے اُجالا کر دے ‘کو چار دانگ عالم عام کیا۔مگر افسوس نفرت و تعصب کی عینک نے ہمیں ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علم و فن اور شخصیت سے کما حقہ بہر ہ مند ہونے کی توفیق نہ دی۔ اہلیان پاکستان کو قدرت نے اپنی تقدیر بدلنے اور امت مسلمہ کو احیائے نشاتہ ثانیہ کا موقع دیا تھا جو کوہتاہ نظری کے باعث گنوایا جا رہا ہے۔ مگر آ نے والی صدیاں شیخ الاسلام کی ہیں انکی علمی، فکری، روحانی اور سماجی کاوشیں کئی صدیاں اپنا لوہا منواتی رہیں گی۔
“کرتے ہیں یاد اب بھی بتاتے نہیں اُنہیں۔ نقصان رک گیا ہے ، حماقت نہیں رکی ”

اپنا تبصرہ بھیجیں