حق حقدار تک۔۔۔ تحریرراجہ فرقان احمد

کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بھکاری سگنل پر کھڑا آنے جانے والی گاڑیوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ دیکھنے میں تو وہ شخص ایک بازو سے محروم لگ رہا تھا۔ اس بھکاری پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن اچانک پیچھے سے ایک نوجوان آیا اور اس نے بھکاری کی قمیض اوپر کی تو دیکھنے کو ملا کہ بھکاری نے اپنا ہاتھ قمیض کے اندر چھپا رکھا تھا.اسکے دونوں ہاتھوں سے صحیح سلامت بھکاری بننے کی ایکٹنگ کر رہا تھا.اس دنیا میں کروڑوں لوگ موجود ہیں جو اس پیشہ ور بھکاری ہیں.
بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک سماجی تجربہ کیا گیا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پاکستانی عوام گدا گری کے پیشے کو کس طریقہ سے فوقیت دیتے ہیں. ایک نوجوان کو پھٹے پرانے کپڑے پہنائیں اور بھیک مانگنے بھیجا جبکہ دوسرے نوجوان کو مختلف چیزوں کو فروخت کرنے بھیجا. شام کو بھکاری اٹھارہ سو روپے جبکہ مزدور نوجوان 600 روپے کما کر لایا. اس سماجی تجربہ کے نتیجے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مزدوری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی.
ہوٹل کے ویٹر, سبزی فروش, مزدوروں اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں جب کہ پیشہ ور بھکاریوں کو دس, بیس یا سو, پچاس دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہو گی. ہونا تو یہ چاہئے کہ بھکاریوں کو کھانا کھلایا جائے جبکہ مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے. کسی دانا آدمی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر بھکاری کو ایک لاکھ روپے بھی دے دیے جائے تو وہ بھکاری اگلے روز بھیک مانگنے نکل جائے گا جبکہ مزدور آدمی اسی رقم سے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا.
وطن عزیز میں آئے روز بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں کی تعداد میں بھی بڑھ رہی ہے.سڑکوں چوک چوراہوں میں کھڑے اکثر معصوم بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں
پاکستان میں تقریبا ڈھائی کروڑ لوگ بھیک مانگتے ہیں.رمضان کے موقع پر یہ بھکاری مافیا شہروں کا رخ کرتی ہے. ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال رمضان کےموقع پرتقریباساٹھ سے ستر ہزار بھکاریوں نے کراچی کارخ کیا.پاکستان کے قانون کے مطابق بھیک مانگنا جرم ہے جسکی سزا تقریبا تین سال ہے جبکہ والدین جو اپنے بچوں کو بھیک منگواتے ہیں انہیں بھی انکےلئے بھی سزا ہے مگر ان قوانین پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوتا.اب تو بھکاریوں کا ٹھیکیداری نظام بھی متعارف ہوچکا ہے جو بھکاریوں کو مختلف سگنلزپرذمہ داری اوردوسرے بھکاری کو اسکی حدودمیں داخل ہونے سے روکتا ہے،
ان بھکاریوں کی وجہ سے اکثرسفید پوش لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں.یہ انسان اپنی آنکھوں سے اپنی حسرتوں اور خوشیوں کو تنکا تنکا ہوتے اور ہوائوں میں بکھرتےدیکھتے ہیں اوران میں بے بسی اورلاچارگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی دوسرے کے سامنے بھیک تو کیا ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے.یہ مستحق لوگ ہوتے ہیں بلکہ اسلام میں بھی ان لوگوں کو صدقہ, زکوۃ دینے کی ترجیح دی گئی ہے.
اکثر لوگ بے روزگاری, غربت کو گداگری میں اضافے کی دلیل دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک اگر پیشہ ور بھکاریوں کو خزانے کی چابی بھی دے دیں تو اگلے دن بھیک مانگنے نکل پڑیں گے.
حکومت کو چاہیے کہ وہ پیشہ وربھکاریوں کے خلاف کریک ڈائون کرکے سخت سے سخت سزا دے. تاکہ اس ناسور کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہو سکے.

اپنا تبصرہ بھیجیں