حجاب ضروری مگر ”بیٹوں” کی تربیت بھی قابل توجہ——راحیلہ ناز

راحیلہ ناز
raheelanaz858@gmail.com

—-حجاب ضروری مگر ”بیٹوں” کی تربیت بھی قابل توجہ—-

جنسی ہراسگی سے بچنے کے لئے خیبر پختونخواہ کے اسکولوں میں عبایہ اور حجاب کو لازمی قرار دیئے جانے کا حکم نامہ جاری ہوا ۔ خبر آئی ۔۔میڈیا پر بحث مباحثہ ہوا ۔حکم واپس لے لیا گیا۔میں ایک سکول کی پرنسپل ہونے ناطے میں کئی دن تک اس حکم نامے کیپہلوں پرغورکرتی رہی ۔۔بچیوں سے رائے بھی لی ۔اور راستے میں چلتے لوگوں کے رویے بھی نوٹ کرنا شروع کئے۔
ہمارے شہر ایبٹ آبا د میں عبایہ اور حجاب کا اہتمام ملک کے بیشتر شہروں کی نسبت ویسے ہی زیادہ کیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں زیادہ تر بچیاں عبایہ میں ہی سکول آتی جاتی ہیں ۔ میرا سکول چونکہ گھر سے نزدیک ہی ہے تو زیادہ تر پیدل ہی آنا جانا ہوتا ہے،کل سکول سے واپسی پر اسی پہلو کو ذہن میں رکھے سوچ بچار میں گم تھی تو ایک طرف نظرپڑی کچھ بچیاں عبایہ اورحجاب پہنے سکول سیواپس آرہی تھیں تو ا پاس ہی کھڑیا یک موصوف نے ان پر جملہ کسا ۔ذرا مکھڑا تے دسو
یہ بچیاں جملہ کسنے والے موصوف کی بیٹیوں کے برابر ہوں گی ۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی بیٹیاں نہیں تھیں
یہ رویہ ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے ۔ گاڑیوں میں سفر کے دوران ہو یا بازاروں میں یا تعلیمی درس گاہیں ۔
کیا صرف عبایہ ہی اس مسئلے کا حل ہے ، ہر گز نہیں ۔ شاید اس ‘نہیں’ کو آپ ایک لبرل سوچ کے ساتھ جوڑ دیں ۔ تو اس کے لئے سب سے پہلی بات تو یہ کہ ایسا ہر گز نہیں کہ میں پردے یا عبایہ کی مخالفت کر رہی ہوں ۔۔۔
لیکن اگر ہم اپنی سوچ کے زاویوں کو تھوڑا کھولیں تو ایک بات ہم سب کو زچ کرے گی کہ ایسا کیوں ہے کہ عبایہ پہننے کے باوجود ہماری خواتین اور نوجوان بچییاں نازیبا جملوں اور ہراسگی کی زد میں ہیں۔۔
ہمارے معاشرے میں بچیاں زرا بڑی ہوتی ہیں تو والدین تربیت دیتے ہیں ۔۔
ایسے نہ بیٹھو ۔۔۔ یوں نہ چلو ۔۔ ٹھیک سے دوپٹہ اوڑھو
لیکن کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ والدین بیٹیوں سے زیادہ اپنے بیٹوں کو بھی ایسی ہی تربیت دیں ۔کہ نظر جھکا کے چلو ۔کس لڑکی کو بری نگاہ سے نہ دیکھو ۔عورت کی عزت کرو۔۔کسی مرد کو حق نہیں کہ وہ کسی کی بہن بیٹی پر جملے کسے ۔۔
مگر افسوس ایسا نہیں ۔۔والدین کے پاس وقت نہیں ۔ ان کے پاس اگر کوئی ان کے بیٹے کی شکایت لے آئے تو کہتے ہیں اپنی بیٹی کو گھر بٹھا لو ۔
آئے روز میڈیا عورت کے ساتھ جنسی درندگی کی خبروں پر چیخ رہا ہے ۔عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی خبروں کو مزے لے لے کر سنایا جاتا ہے مگر اس کا حل یا تدارک کوئی نہیں۔۔۔
اس تحریر کے ذریعے میں تمام والدین سے درخواست کرنا چاہتی ہوں ۔۔کہ جن بیٹوں کو منتوں مرادوں سے مانگتے ہیں ۔انھیں درندہ بننے سے بچا لیں
بچیوں پر قدغن لگانے کی بجاے بیٹوں کی تربیت پر زور دیں ۔
قرآن پاک سورہ یوسف میں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ برائی کی دعوت اگر عورت کی طرف سے بھی ہو تب بھی مرد ثابت قدم رہے۔۔
کسی عورت نے کیا پہنا ہے ۔ یہ اس بات کا لائسنس نہیں کہ اسے ہراساں کیاجائے،نہ کوئی حدیث مبارک یا آیت مبارکہ اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ عورت بے پردہ ہے تو اسے ہراساں کرو
ضرورت اس امر کی ہے کہ پردہ کی اصطلاح کو صرف عورت تک محدود نہ کیا جائے ۔ حیا کا تعلق صرف لباس سے نہیں بلکہ آپ کی نظر اور عمل سے بھی ہے ۔ جہاں عورت کو زینت ظاہر نہ کرنے کا حکم ہے وہاں مرد کو بھی نظ جھکا نے اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم موجود ہے ۔۔۔اپنے معاشرے کو درندگی سے بچانے کے لیے براہ کرم تمام والدین بچوں کی تربیت کی ذمہ داری احسن طریقے ادا کریں ۔۔اور اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ بیٹوں کو بھی باحیا بنانا ان کی اولین ذمہ داری ہے..

اپنا تبصرہ بھیجیں