پگڈنڈیاں—پھِر مَیں اکیلی رہ گئی—ڈاکٹر رابعہ تبسّم

ڈاکٹر رابعہ تبسّم
rabiatabassum17@yahoo.com

——پھِر مَیں اکیلی رہ گئیْ—–

سکول سے واپسی پر صفیہ بھی میرے ساتھ گھر آ گئی۔اماں اوربڑی امّی سے ملی۔کھانا کھانے کے بعد پوچھنے لگی ،یہ تو امّاں یعنی تمہارے بچوں کی دادی ہیں اور جن کو بچے بڑی امّی کہہ رہے ہیں یہ کون ہیں؟جب مَیں نے اُس کو بتایا تو اُس کی آنکھیں حیرت سے کھُلی کی کھُلی رہ گئیں اور رنگ ایک دم زرد ہو گیا۔اُس وقت تو موقع محل کی مناسبت سے وہ خاموش رہی،مگر جب دوسرے دن سکول میں ملے تو کہنے لگی میں تو ابھی تک حیرت کے سمندر میں ہوں کہ تم پہلی بیوی کے سا تھ ایک ہی گھر میں نا صرف رہ رہی ہو بلکہ تمہیں اِس سکول میں آئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے لیکن تم بالکل پُرسکون اور مُطمئن رہتی ہو، تمہارے کسی رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ تم ایسے لوگوں میں رہتی ہوکہ ہم اِس کے تصور سے ہی کانپ جاتے ہیں، تم نے کبھی کوئی شکوہ اپنے گھریلو معاملات کے بارے میں نہیں کیا۔جی ہاں! قدرت نے مجھے اس امتحان کے لئے منتخب کیاتھا جو شاید ایک عورت کے لئے زندگی میں سب سے کھٹن ہے۔ ایک تقسیم شدہ شخص کیساتھ زندگی گزارنااور وہ بھی اس احساس کے ساتھ کی کہیں میرے آنے سے” پہلی” والی پہ کوئی زیادتی تو نہیں ہوئی؟ قدم قدم آزمائشیں لمحے لمحے احتیاطیں اور بہت کچھ۔ .ڈاکٹر صاحب نے بیس برس کے طویل انتظار کے بعد کہ ” بیوی” شروع دن سے ناقابلِ علاج تھی ، اس بات کا فیصلہ کیا کہ اب دوسری شادی کر لینی چاہیئے تاکہ میرے آنگن میں بھی پھول کھِل سکیں۔آفرین ہے اُس شخص کے حوصلے پر کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عورت پھلنے پھُولنے کی صلاحیت سے محروم ہے کبھی کوئی تکلیف نہ ہونے دی اور ہمیشہ عزت و احترام سے رکھا۔ اُس کی رضا مندی سے شادی کا فیصلہ کیا، قرعہ فال میرے نام نکلاکہ اُنہں بچوں کی ضرورت تھی اور میرے والدین کو کسی ” نیک” داماد کی یا پِھر قدرت کے فیصلوںنے ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کروا دیا تھا، مَیں نے اللہ کی رضا جانتے ہوئے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کر دیاجہاں کئی “کھٹن مقامات “بھی آئے مگر قدرت خود ہی سمبھالتی گئی،اور پھر جو کوئی سُنتا حیرت سے کہتا ،”تم دونوں ایک ہی گھر میں رہتی ہو؟” تو میں جواب دیتی،” اگر اُس کی اولاد نہیں تو اِس میں اُس کا کیا قصور ہے؟ اور اگر میری ہے تو اِس میں میرا کیا کمال ہے؟یہ تو اللہ پاک کے فیصلے ہیں جسے چاہے بے اولاد رکھے اور جسے چاہے نواز دے”۔
جب اس خاموش گھر میں پہلا” پھول ” کھلا سبھی خوش ہوئے۔ میری بے بے جی نے بیٹے کو اُٹھا کر اُس کی گود میں ڈال دیا۔ پھر سال گزرتے گئے چمن کھلتا گیاہر دفعہ اُس نے میری تیمارداری اور دلجوئی اپنوں سے بڑھ کر کی، وہ میرے سبھی موسموں کی ساتھی تھی، اس دوران کبھی کبھی برتن ٹکرائے بھی کہ یہ فطرت کا تقاضا تھا مگر اللہ نے ہم دونوں کو ہی صبرو ہمت عطا کی، کبھی میں خاموش رہی کیونکہ وہ میرے بچوں کی نِگہداشت کر رہی تھی اور کبھی وہ چپ رہی کہ اب اُسے کوئی امّی کہنے والا تھا۔یوںہی زندگی کے سرد و گرم سے گزرتے ہوئے ہم ایک بار پھر اسلام آباد سے پنڈی اُسی مکان میں آگئے جہاں میری ڈولی اُتری تھی، اور پھر قدرت نے اپنے فیصلوں میں سے ایک اور فیصلہ سنا دیاوہ فالج کے زبردست حملے کی وجہ سے بستر سے لگ گئی، زبان بات کرنے اور جسم ہلنے سے قاصر ہو گیا۔ ہمارے گھر میں گویا اداسیوں اور پریشانیوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ بیماری اتنی سخت تھی کہ نہ خوراک اندر جاتی تھی اور نہ اخراج صحیح تھا، بچوں نے اس دوران اپنا حق پوری طرح ادا کیااور اپنی امی کی خوب خدمت کی۔بہن بھائی عزیز رشتے داررسمی تیمار داری کے بعداپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا بھاری بھر کم بدن سکڑتا گیا۔دن اور رات کا احساس جیسے مٹ گیا ہو ،ایسا مریض جس کے لیے دن اور رات کی کوئی تخصیص نہ رہی ہو اس کے تیمارداروں کے لئے بھی دن اور رات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ بیماری کا پہلا مہینہ اُس نے روتے روتے گزارا، پھر خود ہی صبر کر لیا۔ مَیں کمرے سے ذرا ادھر اُدھر ہوتی تو پریشان ہو جاتی اور اشارے سے کہتی مجھے اکیلا چھوڑ کر نہ جانا،مَیں پاس بیٹھ کر تلاوت کرتی ، نمازپڑھتی تو سکون سے سوئی رہتی، نہانا ہوتا تو کہتی،” تم خود مجھے نہلائو باقی لوگ میرے جسم کو زور سے رگڑتے ہیں اور مجھے درد ہوتا ہے” ،مَیں نہلا دھلا کر آہستہ آہستہ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرتی ، اپنے آپ کو صاف سُتھرا دیکھ کر میری طرف مُسکرا کر دیکھتی، مَیں پوچھتی “تھک گئی ہیں ” ؟ تو آنکھوں کے اشارے سے کہتیں، ” ہاں” ، تب مَیں ہلکے ہلکے جسم کو دباتی تو سکون سے آنکھیں موند لیتیں۔یونہی سات ماہ گزر گئے، ایک دن مجھے اشاروں سے کہا میرا ٹرنک لاؤ اور اسے کھولو۔ جب مَیں نے ٹرنک کھولا تو اُس میں سے ایک پرس نکلا جس میں ہزار ہزار کے نوٹ تھے اشارہ کیا کہ یہ بڑے بیٹے شانی کی شادی پراُس کی بیوی کے لیے زیور بنانا،میری چوڑیاں بیٹی عینی کو پہنا دو، انگوٹھیاں نعمان کیلئے ہیں میرے کانوں کی بالیاں تم لے لواور یہ میرا لاکٹ میری لاڈلی درِشہوار کے لئے ہے تاکہ وہ میرے سینے سے لگی رہے۔تب ہم سب اُن کے گلے لگ کے خوب روئے اور پُوچھا ،”آپ ہم سے راضی ہیں” ؟بچوں کے سر پہ باری باری ہاتھ پھیرا ، مَیں سب سے راضی ہوں،آسمان کی طرف اشارہ کیا اللہ بھی راضی ہو۔مَیں نے کہا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو معاف کرنا، مجھے اپنے دل سے لگایا، دعا دی، پھر21 جولائی2001کی شام کو جس گھر میں وہ مجھے سرخ جوڑا پہنا کر لائی تھی مَیں نے اُسے سفید جوڑا پہنا کر رخصت کر دیا اور خود اکیلی رہ گئی۔مگر کیا میں سچ مچ اکیلی ہوں؟ نہیں اُس کی یادیں ہر لمحہ ، ہر گھڑی میرے آس پاس ہیں اور میری آنکھیں بھیگی رہتی ہیں۔ اِس وقت بھی میری آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہے۔ اللہ سے دعا ہے میرے آنسو اُس کی بخشش کا سبب بن جائیں اور وہ جنت کے بلند مقام پہ راحت فرمائیں کہ جیسی ہم نے نبھائی شاید ہی کوئی نبھا سکے۔

7 تبصرے “پگڈنڈیاں—پھِر مَیں اکیلی رہ گئی—ڈاکٹر رابعہ تبسّم

  1. This reality which is wrapped is in a story is
    really moving moving and magnetic from every dimension. If on the one side it narrates the story of a suffering lady on the other side it powerfully mentions the sense of sacrifice, unconditional love and ample mind of an other great lady in Pakistani society who in retunrs gets the blessings of Nature .

  2. Respected ma’am ALLAH blessed u with great sabar..jaise jaise app ko sunti hon muj main himmat aty ha.ALLAH.Ny shahid app sy is liye milwaya k main bi sabar or himmat app sy seekh lon.love u most ma’am

  3. بہت خوبصورت الفاظ۔۔دل کو چھو لینے والا احساس ۔۔۔سچی آ بیتی ۔۔۔دو بیویوں کی محبت کی لازوال داستان۔۔۔عصر حاضر کے لئیے عظیم مثال۔۔رب العالمین مرحومہ کو غریق رحمت کرے اور ایل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

  4. This column “may akeeli reh gai” is written in such a way that we are
    enforced to become empathetic and then we find ourself in that place as we are watching the whole story and as its going on with us. Really its made me emotional espe cially when she was distributing the things. Dr.Rabia is season player in writing in true words .hope we will read more from her side .

  5. بہت خوبصورت الفاظ کے ساتھ تحریر دل میں اتر گئی کمال۔۔۔۔

  6. MamI just learn a patience from you that first think about the problem then take a decision I lovethe way you handle the problem !May Allah give you lots of happiness in our life life regards

  7. Dr rabia tabasum
    Ayk sysa nam jo kisi tareef ka muhtaj nahe hy .mashaAllah jo b likte hy seda dil py asar karta hy.jo b samjate hy us k bad kisi or k samjany ki zarorat nahe parte.Allah ap ko lambe zindagi or sehat dy

اپنا تبصرہ بھیجیں