افسانہ—-جل—-ڈاکٹرمریم اعوان

افسانہ :جل
تحریر: ڈاکٹر مریم شریف اعوان
mariampharmacist07@yahoo.com

پانی کا بھی اپنا مزاج ہے۔۔ اپنا طریقہ ہے۔۔ اپنے رواج ہیں۔۔ کہیں یہ پانی شفا بن کے برستا ہے تو کہیں کوئی صحراوءں میں اسکےلیے ترستا ہے۔ کہیں یہ حسین تالابوں اور جھیلوں میں مقید ہے تو کہیں سمندر کی بے حد حدود کو پھاڑ کر عذاب بن جاتا ہے۔۔
شانو کو پانی بہت پسند تھا۔۔ جب سورج کے ساتھ ڈھلتے ہوئے اپنے سائے سمیت وہ پانی بھرنے جاتی تو دریا کے کنارے پہنچ کے ایک ٹھنڈی سانس لے کر پانی کی ساری شفافیت اپنے اندر اتار لیتی ۔۔ پھر مسکرا کر گھڑے میں پانی ڈال کر کنارے رکھتی اور پھر پانی کے ایک کے بعد کئی چھینٹے منہ پر مارتی۔۔ نہ جانے دریا کا اثر تھا یا پانی کا کہ اسے ساتھ آئی سکھیاں بھی یاد نہ آتیں اور جب سورج کی آخری کرن ڈوبنے لگتی تو وہ گھڑا سر پہ رکھے گھر کو بھاگ کھڑی ہوتی۔۔
کبھی کبھی گاوءں کی اپنی ندی میں دیر تک پاوءں ڈالے بیٹھی رہتی۔۔ ماں کہتی تھی کہ کہ تجھے نصیب میں پانی ہی ملے گا۔۔ اور وہ دل میں آمین آمین کہتی جاتی اور کھلکھلاتی رہتی۔۔
کبھی کبھی تو اسے اپنا آپ بھی دیوانہ لگتا تھا۔۔ پر پھر بھی پانی سے محبت ہی غالب رہتی۔
ایک روز اماں چولہے کی مٹی اور اڑتی راکھ سے پریشان ہو کر آگ جلانے میں مصروف تھی تو شانو بولی اماں کیا پانی گناہ دھو سکتا ہے۔۔ ؟؟ اماں تپ ہی تو گئی تھی بولی یہ پانی صرف صاف نہیں کرتا کبھی کبھی جلا بھی دیتا ہے۔۔
شانو کو بات سمجھ نہ آئی تھی۔۔ اس نے کئی رات یہ سوچا تھا۔۔
ایک روز اماں سے بولی اماں پانی تو صرف تب جلاتا ہے جب گرم ہو جیسے کبھی کبھی جاڑوں میں گرم پانی ۔۔
اماں بولی۔۔ نہیں پانی سے جلنے کو ضروری نہیں کہ وہ گرم ہو ۔۔ کبھی ٹھنڈا پانی بھی جھلسا دیتا ہے ۔۔ زخم پہ ڈالا جائے تو بجائے ٹھنڈک کے چیخیں نکل جائیں۔۔ شانو سوچتی کہ اماں کبھی کبھی کتنی عجیب باتیں کرتی ہے بالکل جیسے پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں ۔۔
کیا اماں پڑھی لکھی ہے۔؟ اور اگر نہیں ہے تو بڑے دریا جیسی گہری باتیں کیوں کرتی ہے؟
دریا نے اپنا رخ نہ بدلا نہ ہی اس میں پانی کی ایک بوندکم پڑی۔۔ وقت بہت آگے سرک گیا ۔۔ وقت نے شاید اپنا رخ بدلا وقت میں شاید کوئی شفاف ۔۔ سکون آور بوند نہ بچی۔
شانو نے شادی کے بعد بھی دریا پہ جانا جاری رکھا تھا بس فرق اتنا تھا کہ اب سورج کی آخری کرن ڈوبنے سے بہت پہلے وہ گھر بھاگ آتی کیونکہ آخری کرن سے پہلے تو انور گھر آجاتا ۔۔
پر اس روز سورج اسکا نصیب ساتھ لے کر غروب ہو گیا۔۔ اسے دریا سے واپسی پہ دیر ہو گئی۔۔ وہ بوکھلاہٹ میں گھر کو لوٹتے بکریوں کے ایک ریوڑ کے ہمراہ چل کے اماں کے گھر گئی۔۔ ریوڑ کا مالک دلنواز اپنی دھن میں بے خبر آگے بڑھتا گیا اور شانو اماں کی ڈیوڑھی پر ریوڑ سے الگ ہو گئی۔ پر اماں گاوءں کی ایک شادی پر گئی تھی۔۔ شانو میں واپسی کی ہمت نہ ہوئی ۔۔ وہ اماں کے گھر ہی دبک گئی۔۔ اس نے انور کا غصہ دیکھا تھا ۔۔ انور نے آج تک مسکرا کر بات نہ کی تھی پر ڈانٹا بھی نہ تھا پتہ نہیں اسکی آواز میں کچھ ایسا اثر تھا کہ سامنے والے کی ایک نہ چلتی۔۔
شانو سہمی سی اماں کے گھر اس بات سے بے خبر چھپی رہی کہ گاوءں والے اور انور اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو چکے اور اس کی اماں سے بھی بیاہ والےگھر میں پرسش ہوچکی ہے۔۔ پر نہ جانے کیوں کوئی اماں کے گھر کیوں نہیں آیا تھا۔۔
اس نے سوچا کہ صبح اماں کے ساتھ جائے گی واپس تو انور کے پاس سوال نہ ہونگے۔۔
صبح ہو گئی پر اماں ابھی تک نہیں آئی تھی۔۔ نہ جانے کس خیال میں تھی کہ گلی میں شور سنا۔۔ کچھ دبی دبی سسکیاں تھیں ۔۔ اس نے باہر جھانکا تو کچھ جانی پہچانی شکلیں ایک میت کو لیے آ رہی تھیں ۔۔ پر یہ تو کوئی اسی در پہ آگیا تھا ۔۔ یہ تو اماں تھی۔۔
اماں یہ تو ہے؟؟ تو مر گئی؟؟
ہاں ۔۔ میں مر گئی ہوں اب تو بھی مر جا۔۔
کچھ سمجھی نہیں اماں۔۔
تو کبھی بھی میری بات وقت پہ نہیں سمجھی۔۔
اماں اماں ۔۔
اماں چلی گئی۔۔ اسے اماں کے نہ ہونے کا یقین نہ آنے تک اماں کے نہ ہونے کا یقین نہیں آیا تھا۔
جب اماں جا چکی تو انور کا خیال آیا۔۔
انور تجھے طلاق دے کے جا چکا ہے۔۔ تیری ماں کی میت کے سامنے۔۔ اکبری خالہ بولی
طلاق؟؟ اس نے خود سے پوچھا کہ طلاق کیا ہوتی ہے؟؟
ہاں تو رات گھر نہیں آئی تو تجھے ڈھونڈتے ہوئے انور بیاہ گھر آگیا۔۔ وہاں کسی عورت نے بتایا کہ اس نے تجھے دلنواز کے ساتھ دریا کی طرف سے آتے دیکھا ہے۔۔
انور بپھر گیا تھا ۔۔ اماں نے منتیں کی تھیں کہ شانو ایسی نہیں ہے۔ اماں یہی کہتی چلی گئی۔۔
پانی کا ایک سمندر سارے بند توڑ کے بہہ نکلا۔۔ آج پانی جلا رہا تھا ۔۔ٹھنڈا پانی کیسے جلاتا ہے ؟؟ جب پانی میں نمک ہو۔۔ اور وہ آسمان کی بجائے آنکھوں سے برسے۔۔ اس کی آنکھیں جل گئی تھیں ۔۔
تجھے پانی ہی ملے گا۔۔ اسے وہ پانی کہیں ڈھونڈنا نہیں پڑا وہ اسے اپنی ہی آنکھوں میں مل گیا تھا۔۔

2 تبصرے “افسانہ—-جل—-ڈاکٹرمریم اعوان

  1. زندگی کب کونسا رنگ اختیار کر لیتی ہے پتا ہی نہیں چلتا۔۔کبھی کبھی انسان کو اس جرم کی سزا بھی کاٹنی پڑتی ہے جو اس نے کیا بھی نہیں ہوتا۔۔اور کچھ لوگ ہزاروں برائیوں کے ہوتے ہوئے بھی اتنے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ انہیں زندگی کی تمام خوشیاں بغیر کوشش کے مل جاتی ہیں۔۔یہی زندگی ہے۔۔
    آپکی تحریر پسند آئی ۔۔اگلی تحریر کا انتظار رہے گا۔

    1. آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے اتنے اچھے الفاظ میں حوصلہ افزائی کی اور سراہا۔ سلامت رہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں