ہم بحیثیت قوم—–ڈاکٹرمحمد عمران ساحر

ڈاکٹرمحمد عمران ساحر

ہم بحیثیت قوم–
کہا جاتا ہے کہ قومیں اپنی تہذیب و تمدن سے پہچانی جاتی ہیں۔اور پوری دنیا ان کے بارے میں عمومی رائے ان کے آپس میں میل جول،رہن سہن اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر قائم کرتی ہے۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے بھی بچن سے یہی سنا اور سمجھا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں ایک نہایت منفرد اور بہادر قوم کہ جس نے 1947 میں بے شمار قربانیاں دے کر اس سر زمین پاکستان کو حاصل کیا ہے۔بات بالکل ٹھیک ہے مگر آ ج جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو بشمول میرے مجھے کوئی بھی اس قوم کا فرد نہیں لگتا جس کی خوبیاں ہم خود بیان کرتے ہیں۔
کجا یہ کہ اب یہ کوئی نئی قوم ہے جس نے اپنی ہی تہذیب اور آئیڈیالوجی متعارف کرا رکھی ہے۔۔
آپ سے ایک دن کی روداد شیئر کروں تو ذرا میرے اوپر دیئے گئے بیانات شاید آپ تک اصل روح سے پہنچ سکیں۔بات کچھ یوں ہے کہ صبح 8 بجے دفتر کیلئے نکلتے وقت سے لے کر شام واپس گھر جانے تک اپنی تہذیب و تمدن پر غور کیا جو کہ کچھ یوں ہے:
صبح صبح جو فضا ء رات بھر کے سکون کے بعد معطر اور پر لطف ہونے چاہئیے اسے خیر سے ہم دوھویں گردو غبار اور کوڑے کرکٹ کی نظر کر چکے ہیں۔ذرا سا آگے چلیں تو ہارن نما ایک گالی کا طوفان بدتمیزی آپ کو ملے گا جو آپ کو رات سونے سے قبل تک وحشت میں مبتلا رکھے گا۔جگہ جگہ پر روڈ پر بے ہنگم انداز میں ڈرائیونگ کرتے اس قوم کے سپوت جوہر دکھا رہے ہوتے ہیں اورجن میں سے بیشتر اونچا گانا سننا شان سمجھتے ہیں۔ہماری عظمت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ اک بوڑھا مزدور بیچار ہ اپنی ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر ہمارے سامنے آ تو جائے ہم اس کا منہ نا توڑ دیں کہ اسکی ہمت کیسے ہوئی ہماری جاگیر پر سائیکل چلانے کی ۔اور اس کو دو چار مفلظات سنا کر اپنے با اخلاق ہونے ثبوت دیتے ہوئے ہم شان بے نیازی سے آگے نکل جائیں۔
جب سڑک پر آگے پہنچیں تو ہماری مرضی کے بغیر ایک تو حکومت نے ٹریفک سگنل لگا رکھے ہیں جو کہ ہمارے مطابق نہایت نا معقول اور واحیات حرکت ہے۔اوپر سے اگر بتی لال ہو تو اس پر رکنا بھی لازم قرار دے دیا گیا ہے۔یہاں اگر کانسٹیبل نا ہو تو ہم شہزادوں کی طرح اس سگنل کو لات مار کر آگے نکل جائیں مگر کیا کریں کانسٹیبل کی موجودگی میں رکنا مجبوری بن جاتی ہے۔ٹریفک سگنل کی بتی سبز ہونے تک ہمارا پارہ آخری حد تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور ہمارا بس نہیں چلتا کہ اگلی گاڑی کے اوپر سے آگے نکل جائیں تو ہم ہارن بجا بجا کر آگاہ کرتے ہیں کہ ہم تمیز والے ہیں۔
سارا دن جھوٹ غیبت اور لالچ میں لگ کر ہم نا جانے کتنے دل دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔۔۔
کیا واقعی سچ میں ؟؟؟ زندہ ایسے ہیں تو مردہ کیسے ہوں گے؟؟؟
باقی آپ کی سمجھ اور عقل کیلئے چھوڑا!!!

ہم بحیثیت قوم—–ڈاکٹرمحمد عمران ساحر” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں