رشتوں کی طبعی عمر—–ڈاکٹرمحمد عمران ساحر

ڈاکٹرمحمد عمران ساحر

رشتوں کی طبعی عمر

رشتے مٹی کے جیسے ہوتے ہیں۔۔ خشک اور سخت ہو جائے تو آنکھوں میں پڑتی ہے اور بے حد تکلیف دیتی ہے۔۔ اور اگر یہی مٹی نم اور نرم ہو جائے تو اپنے اندر سے کئی زندگیوں کو جنم دینے صلاحیت رکھتی ہے۔
دیکھا جائے تو ہم سب عمر بھر انہی رشتوں کی دیکھ بھال اور پہچان میں کاٹ دیتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ اکثر رشتوں کو جتانے اور قائل کرنے میں گزار دیتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ویسے حیرت کی بات یہ ہے کہ ان رشتوں کو بھی جتانا پڑتا ہے جن کو ہم خود سے بھی زیادہ اہمیت دے رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ترجیہات کی ایک لسٹ بنا رکھی ہوتی ہے چاہے انجانے میں ہی سہی پر ہوتی ضرور ہے،اور ہم اسی کے مطابق ہر رشتے کو نبھائے جا رہے ہوتے ہیں۔
رشتوں کا یہ اصول بظاہر بڑا منظم اور پر سکون نظر آتا ہے پر کبھی کبھی یہ بڑا بے ترتیب ہو جاتا ہے۔ بے ترتیب ایسے کہ جب ہم اس میں اعتدال قائم نہیں رکھ پاتے۔ کبھی اپنی نوکریوں کے چکر میں، کبھی کاروبار کو بڑھانے کی غرض میں، کبھی اعلی تعلیم تو کبھی کوئی اور بہانہ۔۔۔۔الغرض اس سکون میں بگاڑ آ جاتا ہے اور یہیں سے ہمارا اصل امتحان شروع ہوجاتا ہے جس میں مجھ سمیت آپ میں سے بھی کئی لوگ فیل ہو جاتے ہوں گے۔۔ اور ہماری وہ اچھی نوکری،وہ چمکتا دمکتا کاروبار اور مہنگی مہنگی اعلی ڈگریاں سب یہںں آ کے بے کار ہو جاتی ہیں اور ہم سب من چاہا پا کر بھی بے سکون کھڑے ہوتے ہیں۔
بات صرف سمجھنے کی ہے کے ہم رشتوں کے اس خمیر کو کس طور استعمال کرتے ہیں آیا نم کر کے اس میں سے محبت کی لازوال داستان رقم کر ڈالیں یا پھر نفرت کی وہ سخت دیوار کہ جس میں سسکیوں کی آواز بھی سنائی نہ دے پائے زندگی محض جو چاہا وہ پا لینے کا نام کبھی بھی نہیں ہوتا۔ یہ تو دولت ہے بانٹنے کے لیئے خوشیاں،یادیں اورکچھ پل جو ہمیشہ ہہمیں دوسروں کے دلوں میں زندہ رکھیں گے۔ ۔ ۔اس میں قسمت کا کوئی دوش نہیں بخدا یہ سب کچھ ہم خود طے کرتے ہیں۔۔۔۔۔
۔ میرا یہ سوال خود سمیت ہر شخص سے ہے کہ ترقی تو ہم نے کر لی پر کیا ہم نفع میں رہے؟؟؟
اس سوال کا جواب امید ہے آپ بآسانی معلوم کر لیں گے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں