وجودِ زن—-راحیلہ ناز

راحیلہ ناز
raheelanaz858@gmail.com

—-وجودِ زن—–

جب میں میٹرک میں تھی تو بابا کی ہندکو افسانو ں کی کتاب ” گلیاں تے درنڈے “شائع ہوئی ۔ہندکو بہت میٹھی زبان ہے ۔ہم سب نے ذوق و شوق سے پڑھی ۔ ان خوبصورت افسانوں میں سے تین افسانوں کے مرکزی کردار خواتین ہیں ۔جن میں کٹڑ،شاداں اور چڑیل ہیں ۔
کم عمری کا دور تھا اور اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ ان افسانوں کے اصل سبق یا مرکزی خیال سمجھ سکوں ۔۔بس کہانی کا مزہ لیا اور بس ۔۔۔۔۔۔
مگر یہ افسانے ھمیشہ میرے ذہن میں موجود رہے ۔آہہستہ آہستہ جب زندگی کے پہلو اور تلخیاں آشکار ہونے لگیں تو ان افسانوں کا اصل متن بھی سمجھ آنے لگا –
افسانہ ”چڑیل“ ایک عورت کی کہانی ہے جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے چڑیل کا روپ دھار لیتی ہے ۔۔چکی سے واپس آتے مسافروں کو ڈراتی ۔۔۔۔۔جو اپنے آٹے کی بوری پھینک جاتے ۔ جسے وہ اپنے بچوں کے لیے لے جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عورت کو بھوک سر بازار لے آتی ہے ۔۔کبھی بچوں کی خاطر کبھی بوڑھے ماں باپ کی خاطر ۔۔ ۔۔
تعلیم کی کمی کی وجہ سے ذریعہ معاش بھی مناسب نہیں ۔اب تو کوٸ عمرؓ جیسا حکمران بھی نہیں جو مجبور ماں اور اس کے بچوں کی کفالت کے لئے اپنے کاندھوں پر اناج کی بوری لاد کے اس تک پہنچائے ۔ تو عورت کو مجبورہو کر اس ہوس زدہ معاشرے میں نکلنا پڑتا ہے۔
جہاں لفظی تعریف اور مداح سراٸی سے اسے گھیرا جاتا ہے ۔۔۔اور وجود زن کو اپنے اداروں کی کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے رکھا جاتا ہے ۔۔۔نہ کہ ان کی تعلیم کی قابلیت کی بنا پر
ہم زیادہ دور نہیں جاتے ۔۔زرا اپنے گھر کا TV آن کیجیے ۔تو معلوم ہو گا ۔۔
اپنی product بیچنے کے لیے عورت کو ہی product بنا لیا گیا ۔۔۔چلیں مان لیا گھریلو اشیاء کی publicity کے لیے خواتین کو شامل کرنا ہے ۔۔مگر shaving cream کے اشتہار یا bike اور tyre کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لباس ایسے کہ بس کیا کہوں ۔ایک صابن کا اشتہار ہے ۔۔ tag line ہے اب خوبصورتی سے کیا شرمانا ۔۔۔۔۔صابن بک گیا ۔ساتھ ہی شرم و حیا بھی گٸی …جو اصل خوبصورتی ہے ۔ ۔۔
خدا جانے ہم مغرب کی تقلید میں کس حد تک گریں گے ۔کب اپنی اقدار کو سمجھیں گے ۔

نہ عشق با ادب رہا نہ حسن میں حیا رہی ۔
ھوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی ۔

وجودِ زن—-راحیلہ ناز” ایک تبصرہ

  1. آپ کے لفظوں نے وہ سچ لکھا ہے جسے ہم نے نام نہاد آزادی اور بے جا حقوق کا نام دے رکھا ہے۔۔۔اور اس پر نادم بھی نہیں ہیں بلکہ اتراتے ہیں۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں