بنت حوا—–راحیلہ ناز

راحیلہ ناز
raheelanaz858@gmail.com

—بنت حوا—-

شمشاد کی سوجی آنکھ اور پھٹا ہونٹ اس کی دکھ بھری داستان بیان کر رہے تھے ۔۔۔ایسے زخم ہر ہفتہ دس دن بعد اس کے چہرے کی زینت بنتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ شمشاد اپنے شوہر کا گھر چلاتی ہے جس کیلئے وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے اور بچوں اور ان کے باپ، دونوں کو پال رہی ہے ۔۔۔ اور وہ کام میں جتی رہے اور شوہر کا رعب کم نا ہو اس کے لئے اسے زخموں کے تمغے کبھی سر پر ۔کبھی چہرے پر ۔اور کبھی بدن پر ملتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
شگفتہ سکول ٹیچر ہے ۔پڑھی لکھی ہے گھروں میں برتن بھی نہیں دھونے جایا کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ کیا ۔۔ویسے زخم اس کے جسم پر بھی ۔۔۔۔بلکہ ویسے کیوں ۔۔۔۔۔پڑھے لکھے ہونے کے طعنے کا اضافی میڈل بھی ہے ۔۔۔
اسماء بہت میک اپ کرتی ہے۔۔۔۔بہت ماڈرن ہے—نہیں —-اسما ءکے چہرے پہ Makeup کی دبیز تہہ اس کے fashionable ہونے کی نشانی نہیں ۔۔۔۔۔۔بلکہ یہ تو ان چوٹوں کو چھپانے کے لیے ہے ۔۔۔۔جو رات اس کے شوہر نے اپنے مرد ہونے کے ثبوت کے طور پر اس لگاٸ ہیں
حنا آج بہت گاڑھی lipstick لگا کر آئی ہے کیونکہ اس کو وہ ہونٹ چھپانا تھا جو اس کے سسر کا تھپڑ لگنے سے پھٹ گیا تھا ۔۔
ماہ نور کے سسرال والے کہتے ہیں کہ چھت سے پاؤں پھسلا اور گر کر مر گئی —مگر چھت کے گرد تو ماہ نور کے قد سے بڑی دیوار ہے۔۔۔۔۔
کوئی آگ سے جھلس گئی تو کوئی پانی میں ڈوب گئی۔۔۔۔اچھا ہے مر گئیں۔۔۔جو زندہ ہیں وہ تو روز مرتی ہیں—دن رات مرتی ہیں
یہ تو چند ایک کہانیاں تھیں میرے ارد گرد کی ۔ مگر ہمارے معاشرے میں ہر تیسرے گھر کی یہی کہانی ہے ۔
صرف شوہر یا سسرال نہیں ۔جس کا من کرتا ہے وہ اپنی طاقت وری کا ثبوت دینے کیلئے عورت کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔۔۔
آج کے دور میں بھی ہمارے ہاں بنت حواکبھی بھائی کے لیے ونی ہوتی ہے کبھی وٹہ سٹہ کی بھینٹ چڑھتی ہے ۔۔تو کبھی جائداد بچانے کے لیے قرآن کے ساتھ نکاح دی جاتی ہے ۔۔۔کبھی شادی کے لیے مزضی بتانے پر کاروکارٕی ۔۔۔۔۔۔۔ اور جب کچھ نا ملے تو غیرت کے نام پر قتل۔۔
مگر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔خبردار اے بنت حوا ۔۔۔۔آواز مت اٹھانا ۔۔۔اپنے طرف اٹھے ہاتھ کو مت روکنا ۔۔۔ آواز اٹھای تو بے کردار ہو جاؤگی ۔۔ہاتھ ناروکا تو فاحشہ قرار پاوؤگی ۔۔حق مانگو گی تو کفر کے فتوے لگ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ تم انسان تھوڑی ہو ۔۔۔تم تو عورت ہو ۔۔تم تو مرد کے سکون کے لیے پیدا کی گئی ہو ۔۔۔محبت تمہارا حق تو نہیں ۔ عزت تو صرف مرد کی ہے ۔تم تو بےعزتی کی علامت ہو۔۔۔۔۔۔۔
او خدایا !!!۔۔۔۔ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں ۔۔ ہم ہر سال 25نومبر کو خواتین پر عدم تشدد کے طور پر منا رہے ہیں مگر اپنے نبیﷺ کی سنت پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔۔۔۔۔۔
کیا ہمارا تعلق واقعی اسلام سے ہے کہ شہنشاہ دوعالم ﷺاپنی بیٹی کی آمد پر کھڑے نہیں ہو جاتےتھے ۔۔۔اپنی چادران کے نہیں بچھا دیتے تھے؟
کیا ہم واقعی اسی نبی ﷺکی امت ہیں جو ا پنی بیویوں سے حسن سلوک کا درس دیتے ہیں ؟
کیاہم واقعی اسی مذہب کو ماننے والے ہیں کہ جس میں بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا ۔۔ جہاں جنت کی گارنٹی ماں کی خدمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہم تو ابھی تک دور جہالت میں جی رہے ہیں ۔۔عورت اب بھی پاوں کی جوتی ہے ۔اپنی مرضی سے جینا ۔۔۔۔ارے نہیں اسے سرے سے جینے کا حق بھی نہیں ۔۔گھر بنانا گھر چلانا گھر بنا ئے رکھنا سب اس کی زمہ داریاں ہیں ۔۔۔۔۔مگر کس کا گھر ۔۔۔باپ کا ۔۔۔شوہر کا۔۔۔۔بیٹے کا ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اختر
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں