شہادت کی خوشبو—مریم شریف اعوان

تحریر: ڈاکٹر مریم شریف اعوان
mariampharmacist07@yahoo.com

شہادت کی خوشبو
تحریر: مریم شریف اعوان

فضا میں کوئی خوشبو بسی تهی. یوں جیسے تروتازہ پهولوں کو کشید کر ان کا عطر فضا میں تحلیل کر دیا گیا ہو.
پر یہ خوشبو کیسی تهی.. معلوم نہیں ہو پاتا تها کہ اندهیرے کی چادر ہر سو پهیلی تهی. . خاموشی تهی اور وہ بولتی ہوئی خوشبو بہت ادب سے کچھ کہہ رہی تهی. معطر اور پاکیزہ گفتگو..
ارد گرد کے چرند پرند ہمہ تن گوش تهے.. درخت سر جهکائے کهڑے تهے. تمام عالم پہ محویت طاری تهی.. خاموشی اور خوشبو میں گفتگو ہو رہی تھی اور۔۔ خاموشی سے خاموشی کو سنا جا رہا تها.
ایک ادب تھا کہ ملحوظِ خاطر تھا۔۔
یہ محویت طاری تهی کہ سمت_ مشرق سے سورج کی اداس کرنوں نے جهانکا..مگر صبح کا اجالا زیادہ نہ پهیل پایا .. کہ برفانی ہوا، بادل اور کہرے نے اسکا راستہ روک دیا.. یوں ٹمٹماتی ہوئی، سہمی سی صبح نمودار ہوئی.
خاموشی بدستور گفتگو کر رہی تھی۔۔
جیسے اسے رات گزرنے کا احساس بھی نہ ہو۔۔
فضا میں وہی خوشبو تهی..
اچانک خاموشی نے رک کر ایک گہری سانس لی۔۔ جیسے کوئی ہچکیوں سے رو کر چند لمحے ٹھہرا ہو۔۔ دیواروں پر کہر زدہ روشنی پڑنے لگی۔
کہیں دور سے آدم زادوں کی آوازیں آنے لگیں. کوئی مقدس خاموشی کی جانب بڑهنے لگا..
اجالا بہت نقاہت کے ساتھ گہرا ہونے لگا.. دیواروں پر بہت گہرے سرخ نشانات تھے۔۔ یہ عام سرخ رنگ نہ تھا۔۔ کچھ تو خاص تھا ۔۔ دیواروں سے عقیدت کے آنسو نمایاں ہونے لگے تھے۔۔
اب فضا میں بے قراری بڑھنے لگی تھی۔۔ خوشبو میں سسکیوں کی آمیزش ہو رہی تھی۔۔
آوازیں قریب ہوتی گئیں..
فضا نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ معصوم بچوں پر بہت ظلم ہوا .. معصوم شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی..دیکهو تو ظالموں نے کس طرح خون بہایا..
تو یہ شہادت کی اور شہید کے لہو کی خوشبو تهی.. جس سے فضا معطر تهی.. ہاں یہ تو پهولوں کا عطر ہی تها..
آرمی پبلک سکول پشاور میں 16 دسمبر 2014 کی خونریزی کے بعد عمارت نوحہ کناں تھی۔ دیواریں گویا اپنے چہرے پہ شہیدوں کا لہو مَل کر بوسیدہ ہوئی جاتی تھیں۔
یخ بستہ فرش پر موجود شہداء کے خون اور شیشے کے ٹکڑے۔۔۔ مارنے والوں کی بے حسی۔۔ اور شہید ہونے والوں کی بے بسی کی داستان تھے۔۔
ہر طرف چھائی اداس خاموشی میں کتنی ہی ماؤں کے بین تھے۔۔

وہ لاشے جو سمیٹے تھے۔۔
ننھے کفن لپیٹے تھے۔۔
ٹوٹی ماؤں کی آس تھی۔۔
وہ رات بھی۔۔ اداس تھی۔۔
کرتی تھیں دیواریں بیاں۔۔
بارود و لہو کی داستاں۔۔
اب قرض لہو کا ہے چڑھ گیا۔۔

اور فرض ہے کچھ بڑھ گیا۔۔
شہادت کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے جو ہم سے صرف یہ تقاضا نہیں کرتی کہ ہم رو دیں۔۔ بلکہ ہر شہادت کے بعد ہمارا فرض دوگنا ہو جاتا ہے۔۔ ننھے شہداء کا لہو تقاضا کرتا ہے کہ۔۔
..
بے بسی تو تهی سو تهی..
بے ضمیری مت دکهانا..
لہو جو ہم نے لٹایا ہے. ..
رائیگانی میں مت بہانا..

اگر ہم سمجھیں تو یہ سانحہ اور اس میں ہونے والا نقصان ہمارے لیے کافی ہونا چاہیے۔۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ شدت پسندی کے بدبودار زہر سے خود کو دور رکھیں ورنہ شہادت کی اس خوشبو کے لائق نہیں رہیں گے جس کا تحفہ ہمیں معصوم کلیوں سے ملا ہے۔۔
کتابی باتیں بہت ہوئیں۔۔ عمل کا وقت ہے۔۔ اور عمل کا فیصلہ ہر فرد کو خود کرنا ہے۔۔
سانحہ پشاور کے تمام شہداء کو سلام۔۔

شہادت کی خوشبو—مریم شریف اعوان” ایک تبصرہ

  1. کیا بچے شہید اہونے گئے تھے؟
    کیا وہ شوقیہ گئے تھے؟
    ایسا ہرگز نہیں تھا یہ ایک سیکیورٹی لیپس تھا۔یہ سانحہ تو قوم نے برداشت کرلیا اسکے بعد کیا ہوا ؟؟
    کیا ہم نے اس سانحے سے سبق سیکھا؟
    کیا ہم نے احسان اللہ احسان کو پھانسی چڑھایا؟
    کیا ہم نے اس سانحے پر بننے والی تحقیقاتی رپورٹ پبلک کی؟
    بچوں کو تو ہم نے شہید کرواادیا۔۔لیکن اسکا حق ہم نے ادا نہیں کیا۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں