غیر جمہوری قوتوں کا سیاسی اثر و رسوخ ۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے، اور ملک کا قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب خطرناک ہے۔ اس صورت حال میں حالیہ انتخابات کا انعقاد بحرانوں سے نکلنے کا بہترین طریقہ نہیں کیونکہ اس سے ملک کی مشکلات کا شکار معیشت کا بوجھ مزید بڑھے گا تاہم، پنجاب اور صوبہ پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے دونوں صوبوں میں انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی بھی تناظر میں دیکھا جائے تو اس امر کو اب تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ملک میں انتخابات آئین کے مطابق اپنے وقت پر ہی ہونے چاہئیں، تاہم اس میں بلدیاتی انتخابات کو بھی شامل کرلیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ جہاں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کیلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی میں بلدیات جیسے اہم ادارے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے وہیں انتخابی عمل میں مداخلت کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہتا ہے۔
مملکت کے دونوں ایوانوں میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ کم از بیش تمام سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کیلئے خود کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ نا چاہتے ہیں، اکثر جمہوری اصولوں پر سمجھوتہ اور اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری عمل میں غیر ضروری اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی اجازت دیتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت مزید کمزور ہوئی اور غیر جمہوری قوتوں نے نمایاں طاقت برقرار رکھی۔ ماضی کے تجربات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جمہوری عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاکستان میں جمہوریت پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں موجودہ سیاسی حالات اور انتخابی میدان میں کامیابی کے حصول کیلئے کچھ سیاسی عناصر یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ غیر جمہوری طاقتوں کی غیر جانب دار ہونے سے ایک ممکنہ اتحادی کو کھو رہے ہیں جو اقتدار حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتا تھا، جبکہ دیگر اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ اس سے مساوی مواقع پیدا ہوتے ہیں، جہاں تمام جماعتیں مداخلت کے خوف کے بغیر منصفانہ مقابلہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری اور تمام ریاستی اداروں کا کردار انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم اس بات کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ ریاستی ادارے غیر جانبدار رہیں اور جمہوری عمل میں مداخلت نہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور اس بات کو یقینی بنانے کو ترجیح دینی چاہیے کہ سویلین قیادت آزاد اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے سیاسی کردار سے غیر جانبداری کا اعلان جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں مواقع کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا چکا ہے اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی کے برعکس اپنی پالیسی میں سیاسی مداخلت سے دور ہونے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن کچھ عناصر ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اپنے حق میں کرانے کیلئے ہر قسم کا منفی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہے بلکہ اب انہوں نے مایوسی کے بعد ریاست کے دوسرے اہم ستون کے کندھے پر بندوق رکھ لی ہے جب کہ ایک ستون کو مفلوج بنائے رکھا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فروعی مفادات کیلئے سر پرستی کی دوبارہ قائم کرنے کی کوشش میں جہاں ریاستی ادارے کے سابق سربراہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ان کا یہ عمل سنگین خدشات پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ، جس میں فوج اور دیگر با اثر ادارے شامل ہیں، پر اکثر بعض سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے اور فروعی مفادات کی تکمیل کیلئے جمہوری عمل میں مداخلت کرنے کا الزام ثابت ہوتا آیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں سویلین رہنماؤں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم اعتماد پر مبنی تعلقات بھی پیدا ہوئے۔ موجودہ صورتحال میں جہاں پی ٹی آئی خود کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، نئی نہیں ہے، اور اس طرح کی صف بندیوں کے نتائج کو سمجھنے کیلئے ماضی پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اقتدار ہر قیمت پر حاصل کرنے کیلئے غیر آئینی سمجھوتے نظریہ ضرورت کی کارفرمائیوں کے نتیجے میں، غیر جمہوری قوتوں کا غیر ضروری اثر و رسوخ پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ غیر جمہوری طریقے سے الٹ دیا گیا۔ تاہم، اس کے نتیجے میں جمہوریت کمزورو آمریت مضبوط ہوئی جس میں اسٹیبلشمنٹ نے نمایاں طاقت برقرار رکھی۔ اسی طرح موجودہ صورتحال میں مبینہ طور پی ٹی آئی کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر آئینی تعلقات بحال کرنے کی دوبارہ کوششیں اس کی جمہوریت سے وابستگی پر سنگین سوالات اٹھاتی ہیں۔ اگرچہ یہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے ایک قلیل مدتی حل کی طرح لگ سکتا ہے، لیکن یہ جمہوری اداروں کو کمزور کر تا ہے اور طویل مدت میں ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور سویلین قیادت کے خود مختار رہنے کو یقینی بنانے کیلئے پچھلی حکومتوں کی طرح نقصان ہی پہنچے گا۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال پیچیدہ ہے اور غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کی کوششوں کے جمہوریت پر سنگین اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کو ترجیح دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ غیر سیاسی ادارے جمہوری عمل میں مداخلت نہ کرے۔ تبھی پاکستان اپنے شہریوں کیلئے ایک مستحکم اور جمہوری مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنے کلچر سمیت ریاستی اداروں میں مداخلت کی روایت اور سیاسی کردار سے غیر جانبداری کا تہیہ کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح تمام جماعتیں مداخلت کے خوف کے بغیر منصفانہ طور پر مقابلہ کر سکتی ہیں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی سیاسی افراتفری اور معاشی عدم استحکام کی سبق آموز تاریخ ہے۔ انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے کا حق پاکستان کی جمہوریت اور استحکام کیلئے انتہائی اہم ہے۔ تاہم ریاستی اداروں کو اس حق کو تسلیم کرنے کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ملک خوشحالی اور استحکام کی جانب بڑھے۔ انتخابی عمل میں ووٹ کے حق کو تسلیم کرنا پاکستانی اداروں کو مقدم رکھنا ہوگا۔ بحرانوں سے نکلنے کیلئے سیاسی و معاشی عدم استحکام کسی کے حق میں بہتر نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں