پاکستان گردوں کی خریدوفروخت اورپیوند کاری کیلئے ذرخیز ملک ،طاقتور مافیاز پولیس کی پہنچ سے دور،متعلقہ حکام اور ذمہ داران کی خاموشی سوالیہ نشان

نوٹوں کی چمک دیکھ کر منظم گروہوں میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف شامل، گردوں کی غیرقانونی خریدو فروخت اورپیوندکاری میں ملوث منظم گروہ اور مافیازاتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ قانون کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں
حکومتی دعوئوںاور اقدمات کے باوجود غیر قانونی پیوندکاری کا دھندہ کھلے عام جاری ،پڑوسی ممالک،مشرقی وسطی اور مغربی ممالک سے غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد پاکستان میں گردوں کی سستی اورآسان پیوند کاری کروانے آرہی ہے
ماضی میں سابق گورنر پنجاب کے بھانجے اس مکروہ دھندے میں ملوث رہ چکے،منظم گروہ چند بے ضمیر ڈاکٹروں سے مل کرایک پیوندکاری کے عوض ایک کروڑ روپے کماتے اورپارسائی کا لبادہ اوڑھے معاشرے سے عزت سمیٹتے نظر آتے ہیں
غربت و افلاس ،بیروزگاری اور معاشی حالات سے تنگ افراد اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کیلئے سونے کی چڑیا بن چکے، جنہیں بہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر ایک لاکھ سے ڈیڑھ یا دولاکھ میں صحت مند گردہ خریدا جاتا ہے
لاہور پولیس نے روالپنڈی میں چھاپہ مار کر کیپٹل ہسپتال سے اس گروہ کے چند ارکان کو گرفتار کیا اور روالپنڈی پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ گردہ فروشوں کو روالپنڈی پولیس کی سرپرستی حاصل ہے جو آئی جی پنجاب کیلئے لمحہ فکریہ ہے
طاقتور مافیاز پولیس کی پہنچ سے دور
اسلام آباد(سی این پی)ملک بھر میں گردوں کی غیر قانونی خریدو فروخت اورپیوندکاری کا دھندہ عروج پر پہنچ گیا ،متعلقہ حکام ،پولیس اور ذمہ داران کی معنی خیز خاموشی سے کئی سوالات جنم لینے لگے ، گردوں کی غیرقانونی خریدو فروخت اورپیوندکاری میں ملوث منظم گروہ اور مافیازاتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ قانون کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں ،نوٹوں کی چمک دیکھ کر ان گروہوں میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف بھی شامل ہو چکے ہیں۔تمام تر حکومتی دعوئوں اور ریاستی اقدامات کے باوجود ملک بھر میں گردوں کی غیر قانونی خریدو فروخت اور پیوندکاری کا دھندہ کھلے عام زور و شور سے جاری ہے ،پڑوسی ممالک،مشرقی وسطی اور مغربی ممالک سے غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد پاکستان میں گردوں کی سستی اورآسان پیوند کاری کروانے آرہی ہے۔ایک لاکھ روپے میں غریب اور ضرورت مند شہریوں سے گردہ خرید کر ایک کروڑ روپے میں اسکی فروخت اورپیوندکاری کی جارہی ہے۔غیر ملکی باشندے سوشل میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی گروہوں سے رابطے اور ڈیل کرنے کے بعد پاکستان آتے ہیں کیونکہ غربت ،بیروزگاری اور معاشی مسائل کی وجہ سےپاکستان گردوں کی پیوند کاری کے حوالے سے خاصا ذرخیز ملک بن چکا ہے ،قابل ذکر بات یہ ہے کہ شہر اقتدا ر،راولپنڈی ،لاہور،کراچی اور پشاور سمیت ملک کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں یہ دھندہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے ۔ماضی میں سابق گورنر پنجاب کے دو بھانجے بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث رہ چکے ہیں ،جنکے گروپ میں قابل ڈاکٹرز جنہیں عوام مسیحا سمجھتے ہیں شامل رہے ہیں ، یہ منظم گروہ چند بے ضمیر ڈاکٹروں سے مل کرایک پیوندکاری کے عوض ایک کروڑ روپے کماتے اورپارسائی کا لبادہ اوڑھ کر معاشرے سے عزت سمیٹتے نظر آتے ہیں ۔غربت و افلاس ،بیروزگاری اور معاشی حالات سے تنگ افراد اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کیلئے سونے کی چڑیا ثابت ہوتے ہیں ۔جنہیں بہتر مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر ایک لاکھ سے ڈیڑھ یا دولاکھ میں صحت مند گردہ خریدا جاتا ہے اور اسکے بعد ایک کروڑ یا اس سے زائد رقم کے عوض گردہ فروخت اور پیوندکاری کی جاتی ہے ۔واضح رہے کہ ماضی قریب میں راولپنڈی کے پوش علاقے بحریہ ٹائون کے دو گھروں میں بھی پیوندکاری کا دھندہ جاری تھا ،روات پولیس کے چھاپے پر پیوند کاری میں ملوث نرسنگ اسٹاف کے 4 ارکان اور ڈاکٹر غائب ہو گئے، ملزمان بحریہ ٹائون فیز 8 میں کرائے کے مکان میں قائم غیر قانونی منی آپریشن تھیٹر میں پیوند کاری کرتے تھے۔ پولیس نے گردے کی پیوند کاری کے لیے استعمال ہونے والے سرجیکل اور دیگر آلات برآمد کر کے دو نوں گھروں کو سیل کر دیا۔تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ چھاپے کی پیشگی اطلاع پر اس مکروہ دھندے میں ملوث افرادپیوندکاری کروانے والے غیر ملکیوں کوساتھ لیکر رفو چکر ہو گئے تھے ۔اسکے علاوہ لاہور میں غیر قانونی طور پر گردے کی پیوند کاری کرنے والے گروہ نے 14 سالہ عبداللہ کو لکھو ڈیر سے 8 دسمبر کو اغوا کیا اور 27 روز بعد گردہ نکال کر والدین کے حوالے کر دیا۔عبداللہ کو تشویشناک حالت میں گنگا رام اسپتال منتقل کر دیا گیا۔بچے کے والد کا کہنا ہے کہ ملزمان بچے کو اپنے ساتھ راولپنڈی لے گئے تھے، جہاں ایک موبائل فون کا جھانسہ دے کر اسکا گردہ نکال لیا گیا واضح رہے کہ لاہور پولیس نے اس کے بعد راولپنڈی میں چھاپہ مار کر کیپٹل ہسپتال سے اس گروہ کے چند ارکان کو گرفتار کیا تھا اور راولپنڈی پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ،لاہور پولیس کے اعلی حکام نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اس دھندے میں ملوث افراد کو راولپنڈی پولیس کی سرپرستی حاصل ہے جو کہ آئی جی پنجاب کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔قانون نافذکرنے والے اداروں اور پولیس کی آشیرباد سے منظم گروہ کھلے عام گردوں کی خریدوفروخت اور پیوندکاری کرکے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں جنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں