آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ تشویش کا باعث ہے،حنا جیلانی

اسلام آباد(فوزیہ کلثوم رانا) پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے تمام سیاسی فریقین کو خبر دار کیا ہے زیر حراست افراد کے ساتھ تشدد یا کسی بھی طرح کا ناروا سلوک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دو صحافیوں کی گمشدگی کی بھی شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے، نتائج کو منظر عام پر لایا جائے اور مجرموں کا کڑا احتساب کیا جائے۔پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کا حکومتی فیصلہ خاص طور پر تشویش کا باعث ہے، انہیں ملک کو درپیش متعدد بحرانوں سے نکالنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جس سے ملک کی پہلے سے کمزور جمہوریت کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہوں، ایچ آر سی پی کو موجودہ سیاسی بحران پر گہری نظر ہے اور اس کو تشویش ہے کہ ماضی قریب میں سویلین بالادستی کو شدید نقصان پہنچا ہے،سویلین بالادستی کے تحفظ یا پارلیمنٹ کے وقار کو بر قرار رکھنے میں حکومت کی ناکامی یا عدم دلچسپی انتہائی مایوس کن ثابت ہوئی ہے، 9 مئی کے دوران املاک کی بے دریغ تباہی کے واقعات کو ہوا دی۔ آتش زنی، ہنگامہ آرائی، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور ریاستی اور نجی املاک پر تجاوزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پر امن احتجاج نہیں تھے۔عدلیہ بھی کمزور ثابت ہوئی ہے، اس کے باہمی اتحاد اور غیر جانبداری کی کمی کے اختیارات کی تقسیم پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایچ آر سی پی کو افسوس ہے کہ عدلیہ اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو معتبر طریقے سے برقرار رکھنے میں ناکام رہی جس نے ملک میں قانون کی حکمرانی کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جنرل سیکرٹری اسد بٹ، سینئر ممبر حارث خلیق و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے پریشانی بھی ہے اور تحفظات بھی ہیں حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں نا کام رہی ہے،نو مئی کے واقعات کے بعد صورتحال اور زیادہ خراب ہوگئی، ان اقدامات سے لوگوں کے ذہنوں میں بھی زہر گھولا جارہا ہےاس حوالے سے ریاست نے جو اقدامات کیے ہیں وہ زہر کو زہر سے مارنے کی کوشش ہے،یہ کارروائیاں نہیں بلکہ غصہ نکالا جا رہا ہے،نو مئی کے بعد حکومتی اقدامات پر تنظیم کو تحفظات ہیں،اگرچہ سیاسی کارکنوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد اور زیر حراست تشدد کے بہت سے الزامات کی تصدیق ہونا باقی ہے تاہم، ہم ایسے تمام الزامات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایچ آر سی پی حکام کو یاد دلاتا ہے کہ زیر حراست افراد کے ساتھ تشدد یا کسی بھی طرح کا ناروا سلوک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دو صحافیوں کی گمشدگی کی بھی شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے، نتائج کو منظر عام پر لایا جائے اور مجرموں کا کڑا احتساب کیا جائے۔پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کا حکومتی فیصلہ خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ اگرچہ سرکاری اور نجی املاک کی تباہی کے ذمہ داروں کو بلاشبہ جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، تاہم اس کے لیے سویلین قوانین موجود ہیں۔ کوئی بھی حکومت جو سویلین بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہو وہ اس ایکٹ کے آرٹیکل (d) (1)2 کو منسوخ کرنے پر سنجیدگی سے غور کرے گی، جو عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے، اور یوں لوگوں کو ان کے منصفانہ ٹرائل کے آئینی حق سے محروم کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی کو اس من مانی طریقے پر بھی اعتراض ہے جس کے تحت فوجی عدالتوں کے ذریعے کچھ مقدمات ٹرائل کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں، جو قانون کے سامنے برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کے اصول کے منافی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے جمہوری ، نیک نیتی پر مبنی پر امن طریقے اختیار کرنے چاہئیں ، تا ہم ایچ آر سی پی سمجھتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے پاکستان کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک غیر متناسب اور غیر محتاط اقدام ہو گا جس سے مستقبل میں ایک بری مثال قائم ہوگی اور سیاسی جماعتیں اپنے رائے دہندگان کی خواہشات کے مطابق قدرتی طور پر ترقی کرنے سے قاصر رہیں گی۔ایچ آرسی پی کا اصرار ہے کہ کسی بھی صورت میں قومی انتخابات کو اکتوبر 2023 سے آگے موخر نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایسا کوئی بھی حکومتی اقدام جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے مترادف ہو گا اور اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ ایک ایسے ماحول میں جو تمام بنیادی آزادیوں کے استعمال کا موقع دیتا ہو، آزادانہ، منصفانہ اور قابل اعتماد انتخابات سے کم کوئی بھی چیز ملک کو مزید غیر منصفانہ اور غیر جمہوری سیاسی تجربات سے دوچار کر دے گی۔سب سے بڑھ کر، ایچ آر سی پی کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ پاکستان کی سول سوسائٹی نے ایک طویل اور بھر پور جدو جہد کے بعد جو آزادیاں حاصل کی تھیں غیر سیاسی قوتیں ان پر قابض ہونے کے لیے سرگرم ہیں۔ پاکستانی عوام جس جمہوریت کے طلب گار اور حقدار ہیں وہ بدلتی وفاداریوں اور بیانیوں پر استوار نہیں ہو سکتی۔ ایچ آر سی پی نے 2018 کے انتخابات میں ہونے والی سیاسی انجینئرنگ کی مخالفت کی تھی، اسی طرح آج ہم جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی موجودہ کوششوں کی بھی بھر پور مخالفت کرتے ہیں،انکا مزید کہنا تھا کہ یہاں ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے جس کی صرف پارٹی سے وابستگی تھی ،ہمیں پہلے بھی سیاسی انجئیرنگ پر اعتراض تھا اور آج بھی ہے،سیاسی کارکنوں پر تشدد کے حوالے سے ہمارے پاس ثبوت نہیں لیکن ان الزامات کی آزادانہ تحقیق ضروری ہے،ہمارے نمائندے نےآج اڈیالہ جیل میں گرفتار لوگوں سے ملاقات کی ہےاڈیالہ جیل میں ایک خاتون زیر حراست ہے تاہم ان سے ملنے سے انتظامیہ نے نہیں روکا،شاہ محمود قریشی اور شہریار آفریدی سے ملاقات ہوئی ہے ان کو تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے،عام شہریوں کو ملٹری کورٹ میں دیا گیا، ہمارا مطالبہ کہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائےملٹری کورٹ میں سروسنگ فوجی افسران ہوتے ہیں جن کے غیر جانبداری پر سوال اٹھتا ہے،جیسے اکتوبر میں الیکشن کا کہا گیا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہےحکومت سے مطالبہ ہے جو لوگ گرفتار ہیں ان کی تفصیلات دی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں