’’یہ ہمیشہ سے نہیں تھی یہاں بارود کی بو‘‘

معروف صحافی اور شاعرہ محترمہ ناصرہ زبیری جتنی محنتی اور سرگرم صحافی ہیں اس سے بڑھ کر بہترین و معروف شاعرہ ہیں ۔ یوں تو شاعر کا اپنا کوئی وطن یا علاقہ یا شہر نہیں ہوتاتو پھر ان کی شاعری بھی کسی علاقہ کے لوگوں کے لئے مخصوص نہیں ہوتی۔ اسی طرح محترمہ ناصرہ زبیری کراچی کی رہنے والی ہیںاور امید ہے کہ انہوںنے یہ نظم اپنے شہر کراچی کے حالات پر لکھی ہولیکن جیسے میں نے کہا کہ شاعر آفاقی ہوتے ہیں اور ان کی شاعری بھی کسی ایک شہر کے لئے مخصوص نہیں اسی طرح ان کی اس نظم کو اگر ہمارے پیارے پھولوں اور باغات کے شہر پشاورکو زہن میں رکھ کر پڑھیں تو باکل یہاں موزوں و مناسب لگتی ہے۔ ان کی نظم کا ایک ایک شعر میں نے پشاور کے ہر گلی کوچے میں گونجتاہوا پایا ہے۔ محترمہ ناصرہ زبیری کی نظم کا مطلع پڑھیں اور پشاور شہر کے پرانے محلے داروں کو اگر پوچھیں تو وہ یوں ہی کہیں گے کہ
ہم کہ معصوم سے انسان ہوا کرتے تھے
خوش ہواکرتے تھے حیران ہواکرتے تھے
دھوپ اور تازہ ہوائوں کی پزیرائی کو
چھت ہواکرتی تھی دالان ہواکرتے تھے
کیا ہوئے شہر میں اپنے وہ سخی دل والے
جو فقیری میں بھی سلطان ہواکرتے تھے
میں یہ نہیں کہتاکہ شہر پشاور میں وہ سخی دل والے اب نہیں رہے تاہم کم ضرورہوگئے ہیں۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ لوگ کنجوس ہوگئے ہیں بلکہ میں تو ان لوگوں کی بات کررہاہوں جو دل کے سخی تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم محلے کے کسی بھی گھر میں گھس جاتے اور جو پکا ہوتا کھالیتے تھے کبھی بھی کسی گھروالے نے بجٹ کی کمی یا مہنگائی کا رونا نہیں رویا تھا کیونکہ وہ فقیری میں بھی سلطان ہواکرتے تھے۔ چائے قہواکا تو کوئی وقت مقرر نہیں تھا ہر وقت چائے کا اور قہوے کا وقت ہوتاتھا۔ گھنٹوں محفلیں چلتی تھیں اور سب دوست مل بیٹھ کر وقت گزارتے تھے والدین نے بھی کبھی روک ٹوک نہیں کی تھی۔ اب تو ہرشخص اتنا مصروف ہے روزی روٹی کمانے میں ہی لگارہتاہے کہ وہ قہوے کی محفلیں تو قصہئ پارینہ ہوچکاہے۔
میں آدھی صدی پہلے کی باتیں کررہاہوں اور میری عمر یا اس دور کے لوگ میری باتیں پڑھ کا ایک آہ بھر رہے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے ہم سب کے سب ایک دوسرے کے محلوں میں بھی آزادی سے آیا جایا کرتے تھے کیونکہ محلوں کے صرف نام الگ تھے تاہم کوئی شہری بھی دوسرے شہری سے الگ نہیں تھا یہاں تک کہ یہاں قوموں اور فرقوں کی تفریق نہیں تھی۔ جیسا کہ محترمہ ناصرہ زبیری نے اپنے اس شہر میں کہا کہ
آج یوں ہے کوئی سنی ہے کوئی شیعہ ہے
اچھے وقتوں میں مسلمان ہوا کرتے تھے
پچاس سال سے زائد کی عمرکے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ شہر پشاور پھولوں اور باغات سے بھراہواتھا اسی لئے تو اسے عرفِ عام میں ’’پھولوں کا شہر ‘‘ کہاجاتاتھا لیکن پھر 80ئ کی دھائی میں اس شہر کو ایسی نظر لگی کہ پھول آہستہ آہستہ ناپید ہونا شروع ہوگئے جی ہاں یہ جو پھولوں کی چند دکانیں ہیں ان سے پوچھا جاسکتاہے میری بات کی تصدیق وہ بھی کریں گے۔ میرے شہر کے گلاب اور گل دائودی کی خوشبو ایک الگ ہی تھی وہ آج کل کے گلابوں اور گل دائودی میں نہیں ہے۔ آج کے دور میں میرے پیارے شہر پشاور میں گلی محلوں میں گلاب اور گل دائودی کی خوشبوکی جگہ بارود کی بو بس گئی ہے ۔ گو ناصرہ زبیری نے یہ شعرشہر کراچی کے لئے کہا لیکن پشاور پر ایسے درست بیٹھتاہے کہ جیسے یہاں کے بارے میں ہی کہاہو۔
یہ ہمیشہ سے نہیں تھی یہاں بارود کی بو
گل ہواکرتے تھے گلدان ہواکرتے تھے

اپنا تبصرہ بھیجیں