اب انٹر نیٹ بھی بند

آج دفتر سے آتے ہی میرے چھوٹے بیٹے نے کہا بابا چلتے ہیں ہمارے گھر کے ساتھ والی مارکیٹ میں جو فاسٹ فوڈ کی برانچ ہے اس کے ڈیلیوری بوائے کو کچھ پیسے دینے ہیں میں نے پوچھا اگر آپ نے کچھ منگوایا تھا تو پھر اسی وقت پیسے بھی دے دیتے میرا انتظار کیوں کررہے ہو۔ بیٹے نے کہاکہ بابا بات کچھ اور ہے آپ بس میرے ساتھ چلیں اور ساتھ میں کچھ ہزار روپے بھی لے لیں ۔ ظاہر سی بات ہے میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی میں نے قدرے غصہ میں پوچھا کہ سچ سچ بتاتے ہویا۔۔۔۔اس نے میرے غصہ کو دیکھتے ہوئے سچ بتاہی دیا۔ اس نے کہا کہ آپ کو علم ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے انٹرنیٹ بند ہے اور ان بیچاروں کا ساراکاروبار اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ رائڈرز یا ڈیلیوری بوائز کی دیہاڑی اسی میں ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب کوئی آرڑردے گا تو یہ اسے ان کے گھر تک پہنچائیں گے تو ہی انہیں ان کے حصہ کے پیسے ملیں گے۔ اپنے بچے کے اصرار پر ہم وہاں گئے ان کی کچھ مدد کرناچاہے مگر ان خددارلوگوں نے کچھ لینے سے صاف انکارکردیا اور کہا امید ہے جلد ہی حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
حالات کیوں خراب ہوئے اور ان کا حل کس کے پاس ہے اگر حکومت نے کرنا ہے توہ ہر دور کی ہر حکومت‘ ـپاکستان میں عوام کے وسیع تر مفاد میں کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے یہ تو کچھ حکومت کے مخالفین ہوتے ہیں جو ہماری پیاری حکومت کے خلاف غریب عوام کو بھڑکاتے رہتے ہیں اور ہم سادہ لوح لوگ ان کی باتوں میں آکر اپنا ہی نقصان کربیٹھتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی کہ پاکستان میں چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہواور اگر سیاسی حکومت نہ بھی ہوتب بھی جو بھی بجٹ بنتاہے وہ عوام دوست ہوتاہے لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ اپوزیشن والے ہمیں خواہ مخواہ اتنے پیارے بجٹ کے خلاف اکساتے رہتے ہیں کہ یہ بجٹ غریبوں کا قاتل ہے اس سے غریب عوام پر مزید بوجھ پڑے گا وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت اس کے کہیں الٹ ہوتی ہے ہر دفعہ ہر حکومت کے ہر بجٹ میں عوام کے لئے سہولتیں ہی سہولتیں ہوتی ہیںکسی بھی بجٹ کے بعد مہنگائی نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں اور ہر ایک کا گزارااپنی تنخواہ میں بخوبی ہوجاتاہے تاہم حکومت اپنی غریب عوام کا خیال رکھتے ہوئے تنخواہوں میں دس سے بیس فیصد تک بڑھاکر انہیں عیاشی کرنے کے لئے بھی اچھی خاصی رقم ادا کردی جاتی ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے کہ جن کی سرکاری یا غیر سرکاری نوکری نہیں ہے تو انہیں بھی بہت سی سہولیات دے کر خوش کردیا جاتاہے ۔ پٹرول سو روپے مہنگا کرکے پھر دس دس روپے کے چار دفعہ رعایت دے کر وہ احسان کردیاجاتاہے کہ عوام خوشی سے پاگل ہوجاتے ہیں۔
حکومت کچھ نہ کچھ بند کرتی رہتی ہے اور پھر عوام کے پرزور اصرار پر پھر کھول دیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک فیصلہ یوٹیلیٹی سٹورز کے بند کرنے کا ہوا تھا پھر حکومت نے واپس لے لیا۔ ستر کی دھائی میں یوٹیلیٹی سٹورز بنانے کا بنیادی مقصد غریب عوام کو رعائیتی نرخوں پر یا یوں کہاجائے کہ فیکٹری ریٹ پر معیاری اشیائ ان کے گھرکے قریب آسانی سے مل جائے ۔ اس وقت چند شاخیں بنائی گئیں اور آج پورے پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد شاخیں موجود ہیں۔ ان برانچوں میں تقریباً پندرہ ہزار ملازمین ہیں۔ اور یہ بات بھی آپ نہیں مانیں گے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ بھی حکومت نے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے کہا ہے کہ ملک اس بات کا متہمل نہیں ہوسکتاہے غریب کمائے اور اشرافیہ اور افسر شاہی عیاشی کرے۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مشترکہ وفاقی حکومت کے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو کون بتائے کہ یوٹیلیٹی سٹورز ان محکموں میں سے نہیںکہ جہاں سے اشرافیہ اور افسر شاہی عیاشی کررہی ہے بلکہ یہ توساراغریب اور تنخواہ دارطبقے کے لئے ہے۔ اس سلسلہ کو بند کرنے سے سراسر تکلیف غریب طبقے کو ہوگی، مہنگائی سے غریب کی پہلے سے کمر ٹوٹے ہوئی ہے اور اب یہ جو تھوڑی سی رعایت ملی ہے اسے بھی ختم کرکے کمر بالکل ہی زمین سے لگ جائے گی۔ یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ وفاقی حکومت کا اجلاس ہوا اور اس میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذمیں غیر ضروری تعطل کو ختم کرنے اور صرف انتہائی ضروری محکموں کومذید مضبوط کرنے کے لئے رائٹ سائزنگ کی جارہی ہے۔
دہشت گردی زدہ صوبہ خیبر پختونخوا اور میرے شہرپشاورمیں روزگار کے حالات پہلے سے مخدوش ہیں۔ خدا خداکرکے انٹرنیٹ کے زریعے کچھ نہ کچھ دال دلیا کمارہے تھے اورحکومت کو شائد یہ ادراک ہی نہیں کہ انٹرنیٹ آج کل عیاشی نہیں بلکہ سیکنڑوں نوجوان اور جوان اس کے زریعے آن لائن روزگارکررہے ہیں ۔ پشاور شہر میں گزشتہ کئی دنوں سے انٹرنیٹ کی سروس نہیں جس سے آن لائن روزگار والوں کو گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے ۔ ان کی خداری بھی دیدنی ہے کہ جب کوئی ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرتاہے یا انہیں دینے کی کوشش کرتاہے تو کسی قسم کی امداد لینے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ لہٰذہ حکومت سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کا جلد از جلد حل نکالا جائے تاکہ خدداروں کی خدداری قائم و دائم رہے اور ان کے گھر بھی چلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں