کیا ریگولائزیشن وزیراعظم کاحق ہے عوام کانہیں۔۔۔ملک عبدالجبار

کسی بھی معاشرے میں جب انصاف و قانون کے معیارات الگ الگ ہوجائیں امیر اور طاقتور کیلئے الگ قانون اور غریب کیلئے الگ قانون ہو تو معاشرہ نہ صرف زوال پذیر ہوتا ہے بلکہ معاشرتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں ،اسلام نے عدل و انصاف کو بہت اہمیت دی ہے یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں عرب کی بااثر گھرانے کی عورت جسکا نام فاطمہ تھا چوری کے الزام میں ہاتھ کٹنے کی سزاکی مستحق ٹھہری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت سے لوگوں نے عورت کے حق میں سفارش کی کہ مذکورہ عورت کے ساتھ سزا میں نرمی برتی جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم اگر اس عورت کی جگہ فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی ہوتیں تو وہ بھی اسی سزا کی حقدار ٹھہرتیں،یہی وہ عدل و انصاف کے معیار تھے جن پر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی ،اسلام نے حسب و نسب کو پس پشت ڈال کر قانون پر عمل درآمد کا حکم دیا ہے،پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جب اپنی جماعت کی بنیاد رکھی تو انکا سب سے پہلا نعرہ انصاف تھا جسکے بعد انہوں نے جدوجہد جاری رکھی انصاف،احتساب اور تبدیلی کے نعرے نے عوام کو انکی جانب متوجہ کیا اور بیس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد وہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے عوام نے انصاف،احتساب اور تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے 2018کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دے کر کامیاب کیا۔موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار کے حصول کے بعد ریاست مدینہ کو ماڈل قرار دیتے ہوئے پاکستان کو ریاست مدینہ ثانی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ،ڈھائی سالہ دور اقتدار میں بہت سارے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جس میں انہوں نے زیرو ٹالرنس کا عزم کیا مگر بعد میں وہ بیان سیاسی ہی ثابت ہوئے،گزشتہ چند روز سے قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان کی بنی گالہ کی رہائش گا ہ کے ریگولائز ہونے پر بحث مباحثہ زور وشور سے جاری ہے ،ماضی میں جھانکا جائے تو تین سال قبل بنی گالہ میں تجاوزات اور تعمیرات پر سپریم کورٹ کو عمران خان نے خط لکھا جس پراس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)سے رپورٹ مانگی تو جواب میں سی ڈی اے نے 122 رہائشی اور کمرشل عمارتوں کی فہرست جمع کرا دی، جس میں درخواست گزارعمران خان کے گھر کو بھی غیر قانونی قرار دے دیاگیا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ریگولیشن 1992 کے مطابق اسلام آباد کے زون تھری اور فور میں سی ڈی اے سے منظور شدہ ہاوسنگ سوسائٹیز کے علاوہ کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی ہے۔ راول ڈیم اور اس سے ملحقہ دو کلومیٹر کے علاقے میں تعمیرات پر بھی پابندی ہے اور عمران خان کی بنی گالا میں رہائشگاہ آئی سی ٹی ریگولیشن کی خلاف ورزی ہے۔سی ڈی اے حکام کے مطابق زون تھری میں راول ڈیم اور اس سے ملحقہ علاقے کو نیشنل پارک ڈیکلیئر کیا گیا ہے، وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے مطابق بھی نیشنل پارک اور راول ڈیم کے اطراف میں تعمیرات پر پابندی ہے۔سی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ سی ڈی اے کی درخواست پر ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دیا گیاہے اور تمام غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کی بھی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔تین سال کے بعدوفاقی ترقیاتی ادارے(سی ڈی اے)نے معمولی جرمانے پر حاکم وقت کے گھر کو ریگولائز کر دیا ہے، نقشہ ترمیم شدہ بلڈنگ ریگولیشنز 2020 کے تحت منظور کیا گیا ،سی ڈی اے نے وزیراعظم کا بنی گالہ کا گھر 106روپے مربع فٹ کے حساب سے ریگولر کیا۔ نقشہ منظور کرانے کیلئے عمران خان نے 12 لاکھ چھ ہزارروپے جرمانہ بھی ادا کیا، یہ جرمانہ بغیر اجازت تعمیرات پر کیا گیا تھا۔نقشہ سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ نے منظورکیا،ریگولیشنز کے تحت اسلام آباد کا علاقہ بنی گالہ بھی منظور کرلیاگیا، دلچسپ با ت یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے دیگر دیہی علاقوں ترلائی،جیگوٹ،ترنول،شاہ اللہ دتہ ،میرا آبادی سمیت دیگر علاقوں میں جہاں غریب عوام کے گھر ہیں انہیں ریگولائز نہیں کیا گیا مذکورہ علاقوں میں بجلی اور گیس کے نئے کنکشنز پرضلعی انتظامیہ اور سی ڈی اے نے پابندی عائد کر رکھی ہے،اسکے علاوہ ماضی قریب میں جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو کشمیر ہائی وے سمیت وفاقی دارالحکومت میں تجاوزات کیخلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا پہلے مرحلے میں عدالتی حکم پر کشمیر ہائی وے پر موجود کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کئے گئے شادی ہالز(مارکی)،ہوٹل ،پلازے اور متعدد گھر بلڈوز کر دئیے گئے آج بھی کشمیر ہائی وے پر متعدد پلازوں اور شادی ہالز کی باقیات نظر آتی ہیں اسکے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے مختلف سیکٹرز میں آپریشنزکے دوران جہاں تجاوزات کو گرایا گیا وہیں دو مساجد کو بھی تجاوزات کے نام پر شہید کیا گیا ،سی ڈی اے نے مختلف سیکٹرز میں موجود ڈھابے جہاں سے مزدور اور محنت کش طبقے کے افراد کم پیسوں میں کھانا کھا لیتے تھے انہیں بھی عتاب کا نشانہ بنایا اور بیسیوں ڈھابے جن کی وجہ سے سینکڑوں گھروں کا چولہا بھی جلتا تھاکو مسمار کردیا گیا۔یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ریاست مدینہ ثانی کا نام لینے والے ریگولائز نہیں کرسکتے تھے ؟یہ جرمانے ادا کرکے اپنی قیمتی جائیدادیں نہیں بچا سکتے تھے ؟غریب اپنے ڈھابے نہیں بچا سکتے تھے ؟کیا یہ حق صرف اعلی منصب پر فائز شخص کو ہی حاصل ہے جسکا اپارٹمنٹ بچانے کیلئے کبھی گرینڈ حیات کو ریگولائز کیا جاتا ہے تو کبھی بنی گالہ کے محل کو ۔۔دوسرے جرمانہ ادا کرنے کا مطلب مہذب معاشروں میں غیرقانونی کام کا اقرار کرنا لیا جاتا ہے اگر عمران خان نے غیر قانونی تعمیرات کرنے کا اقبال جرم کر لیا ہے تو اخلاقی طور پر انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا مگر ایسی روایات اور رواج پاکستانی سیاست میں ناپید ہیں یہاں صرف ایک ہی رواج ہے میٹھا میٹھا ہپ ہپ ۔۔کڑوا کڑوا تھو تھو ۔۔اسکے سوا کچھ نہیں ۔

کیا ریگولائزیشن وزیراعظم کاحق ہے عوام کانہیں۔۔۔ملک عبدالجبار” ایک تبصرہ

  1. ماشاءاللہ ۔ آپ ملک عبدالجبار صاحب لکھتے اور بولنے میں بھی بہت ماہر ہیں کوشش کروں گا کہ لکھوں استاد کی معاونت کی اشد ضرورت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں