ثالث اور تیل کی دھار بمقابلہ جیل بھرو تحریک ….. قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

پاکستان ڈیمو کرٹیک موومنٹ کی استعفیٰ مہم پر مبنی اعصابی و سیاسی جنگ میں حکومت کے نفسیاتی واربھی جاری ہیں،بظاہر اپوزیشن سینیٹ کا الیکٹرول کالج توڑنے کے لئے مستعفی ہونا چاہتی ہے جب کہ حکومت خواہش مند کہ حزب اختلاف فوری استعفیٰ دے،تاکہ سینیٹمیں جیت کے علاوہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل کرلے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں فریقین اچھی طرح جانتے ہیں کہ استعفیٰ دے بھی دیئے جائیں تو بھی آئین میں اتنی گنجائش ہے کہ وہ سب کچھ ہوسکتا ہے، جو سوچا بھی جارہا ہے۔
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں
مذاکرات کے لئے سازگار ماحول نہیں بن رہا کیونکہ ثالث ابھی مزید تیل کی دھار دیکھنا چاہتے ہیں، مذاکرات واحد ایک ایسا ذریعہ ہے، جس میں دلیل و شعور اور سماجی بہاؤ کے تحت فیصلہ سازی کے امکانات ہوتے ہیں، میڈیا مذاکراتی عمل میں براہ راست شریک تو نہیں ہوتا، لیکن ماحول بنانے میں جتنا اہم کردار ’ثالث‘ کا ہے، اسی قدر ذرائع ابلاغ کا۔ دن کو رات اور سیاہ کو سفید کرنا میڈیا کے بغیر کسی بھی ریاستی ادارے کے لئے ممکن نہیں۔ذرائع ابلاغ کے ذرائع بتا چکے ہیں کہ ابھی پی ڈی ایم میں استعفوں کے حوالے سے باریک اختلاف رائے موجود ہے، تاہم سب سے بڑی’قربانی‘ اگر کسی کو دینی ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جسے سینیٹ، قومی اسمبلی کے علاوہ سندھ کی حکومت سے دستبردار ہونا ہوگا۔ یہ بہت کڑوا اور سخت فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، اگر پی پی پی قیادت من و عن اس پر عمل کرے(گو ممکن نظر نہیں آرہا)۔
مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی نمائندگی پارلیمان میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اگر گذشتہ انتخابات میں ان کے تمام نمائندوں کو کامیاب بھی تصو ر کرلیا جائے تو بھی اُن کی حکومت بننے کا کوئی امکان موجود نہیں تھا،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پنجاب میں ہاتھ ضرور ہوا اوراکثریت میں ہونے کے باوجود تخت لاہور حاصل نہیں کرسکے۔ تصور کربھی لیا جائے کہ اگر ماضی کی طرح انہیں دو تہائی اکثریت مل بھی جاتی تو پی پی پی و پی ٹی آئی کے ساتھ روایتی محاذ آرائیاں عروج پرہوتیں، علاقائی(صوبائی) سیاست کی بات ہی نہیں کرتے، کیونکہ جہاں جاگیردارنہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارنہ نظام، سردار، خوانین اور مَلک ہوں وہاں وہی حال ہوتا ہے، جیسا گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہوا۔ ان معروضی حالات میں موجودہ سیاسی صورتحال کے زمینی حقائق کو جاننا ازحد ضروری ہے۔رائے سازی کا مشاورتی عمل جمہوری بلوغت میں تاحال آزادنہ نہیں، فیصلے کچن کیبنٹ کے ماتحت کرکے صادر کردیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہی ہے جسے والدین اپنے بچوں پر تحکمانہ رویے رکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرنا بچو ں کا فرض ہے، اسی طرح اساتذہ کا پڑھایا سبق ہو یا سیاست کی چالیں، افہام و تفہیم کا پیمانہ غیر متوازی و رائے مسلط کرنے کے رجحان پر ہی منتج ہوتا ہے۔تنقیدی رائے کی آگاہی و شعوری برداشت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تفریق بڑھتی جارہی ہے اور امتیازی رویوں کے فروغ کی وجہ سے رائے پرغور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، اس لیے لوگوں میں تشدد اور حتمیت پختہ ہے اور نرمی بھی نہیں پائی جاتی۔
پی ڈی ایم کے اجتماعی استعفوں کے حوالے سے ایک واضح حکمت عملی موجود ہے کہ اگر آخری آپشن کے طور پر استعفیٰ جمع کرا بھی دیئے جائیں تو ان کی فوری منظوری ممکن نہیں، ماضی میں تحریک انصاف نے بھی اجتماعی استعفے دیئے تھے، لیکن انہیں ”ناگزیر“ وجوہ کی بنا پر زیر التوا رکھاگیا، یہاں تک کہ 126دن کی فضول مشق رائیگاں چلی گئی۔ فرض کربھی لیا جائے کہ اجتماعی استعفیٰ دے دیئے جاتے ہیں تو ماسوائے سندھ کے تینوں صوبوں اور وفاق میں فوری منظوری کے لئے وقت درکار ہوگا، یہی وہ لمحہ ہوگا جب سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول جاری کرنا پُرکشش ہوسکتا ہے، اسپیکر اراکین اسمبلی کے استعفیٰ منظور کرنے کے لئے یقینی طور وقت لیں گے، انفرادی طور پر اراکین اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لئے بلایا جائے گا، اب یہ اسپیکر کی صوابید پر منحصر ہے کہ وہ اراکین اسمبلی کی تمام تعداد کو ایک دن میں ہی بلاتے ہیں، یا پھر ’ناگزیر‘ وجوہ کی بنا پر تاخیر ہوسکتی ہے، ایسی مثبت تاخیر کے دورانیہ میں سینیٹ کا انتخاب یقینی ہوسکتا ہے، لہذا پی ڈی ایم استعفیٰ دے بھی دیتی ہے تو اُس وقت تک حکمران جماعت سینیٹ میں اکثریت حاصل کرچکی ہوگی ۔
خیال رہے کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق کسی بھی رکن کا استعفیٰ موصول ہونے کے بعد سپیکر کو ممبر اسمبلی کا استعفی فوری طور پر منظور کرنے یا استعفیٰ کی تصدیق کے چھ ماہ تک اسے زیر التوا رکھنے کا اختیار حاصل ہے۔ سپیکر جس رکن اسمبلی کا استعفی منظور کر کے اس نشست کو خالی قرار دینے کا خط لکھے گا، الیکشن کمیشن اس ممبر کو ڈی نوٹیفائی کر کے خالی نشست پر 60 دنوں کے اندر ضمنی انتخاب کرانے کا پابند ہوگا۔نیز ہر صوبے میں استعفیٰ منظوری کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے، اس لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ ضمنی انتخابات کے لئے تمام نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن کروانے کے لئے الیکشن کمیشن تیار ہوگا،ہنگامی بنیادوں پر کئی ’معاملات‘ایسے بھی آسکتے ہیں کہ ہر صوبے میں ضمنی انتخابات کے لئے جدا شیڈول جاری ہو اور اس وقت تک اگلے عام انتخابات قریب آجائیں اور حزب اختلاف بالخصوص پی ڈی ایم کی حکمت عملی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے، اگر وقت کو ربڑ کی طرح کھینچنے کی کوشش بھی کی جائے تو ناممکن ہرگز نہیں،پی ڈی ایم و جماعت اسلامی کے جلسوں، لانگ مارچ، دھرنوں اور مستعفی ہونے تک تاخیری حربے و اعصابی جنگ میں اُس فریق کی جیت ہوگی، جو کمال برداشت سے کام لے۔ حکومت کے لئے امتحان ہے کہ وہ کس قدر سیاسی پُر امن دباؤ کو ہلکا لیتی ہے، دوسری جانب حزب اختلاف بھی مشکل میں ہوگی کہ اگر تمام جمہوری حربے استعمال کرنے کے بعد استعفوں کا آپشن بھی ناکام ہوگیا تو ان کی زنبیل میں ایسا کیا نکل سکتا ہے، جس سے حکومت گرا ئی جاسکے۔ تمام ممکنہ سیاسی چالوں کو ایک جانب رکھتے ہوئے،ثالث اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں وقت ضائع نہ کریں، تیل دیکھیں یا اُس کی دھار، تاخیر سے تمام نظام کو خطرہ ہے جس کا کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں۔ثالث کا تمام فریقین کو ایک میز لانا سب کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں