پولیس، باراور بینچ ……………… شاہد اعوان

ملک عزیز میں مقدمات کی طوالت پولیس کی جانب سے بروقت چالان پیش نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں یا کیس لٹکانے میں وکلاء کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر ماتحت عدالتیں اس کا اصل سبب ہیں۔۔۔۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہر وقت کھٹکتی ہے۔ قتل و غارت اور دیوانی مقدمات ایک لمبے عرصے تک عدالتوں میں چلتے ہیں اور نسل در نسل یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ مقدمات کے بروقت فیصلے نہ ہونے سے انتقامی جذبات کو تقویت ملتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ قانون شکنی کا شکار ہوجاتا ہے۔ مذکورہ بحث اکیسویں صدی میں کچھ جچتی تو نہیں کہ اب وسائل کے ساتھ ساتھ نظام میں بھی جدت آچکی ہے تو پھر قابلِ فکر امر یہ ہے کہ معاملہ کہاں سے خرابی کی طرف جا رہا ہے؟ ان معاملات کو حل کرنے کے لئے تکون کے تینوں سِروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس تناظر میں ہم سب سے پہلے محکمہ پولیس کو لیتے ہیں کہ ایف آئی آر سے لے کر عدالتوں میں چالان پیش کرنے تک پولیس کا کردار بنیادی ہوتا ہے، پولیس اگر فریقین اور گواہان کی مدد سے بروقت اصل حقائق تک پہنچ جائے تو مقدمات کو جلد نبٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے عوام سے رابطوں کو قریب تر بنانے اور نتائج تک رسائی کے لئے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے اس کے لئے گلی محلوں اور دیہاتوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا تاکہ معمولی اور چھوٹے مقدمات تھانوں تک جانے کے بجائے ان کمیٹیوں میں خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں جس سے ناصرف عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا بلکہ معاشرے میں بھائی چارے اور محبت کو بھی فروغ ملے گا، باہمی تنائو اور لڑائی جھگڑوں میں کمی واقع ہو گی۔ پولیس میں سیاسی اثرورسوخ ختم کرنا ہو گا، تھانوں میں تفتیشی عملے کو دیگر امور سے آزاد کیا جانا چاہئے انہیں مخصوص مدت میں چالان پیش کرنے کا پابند بنایا جائے جبکہ بہتر تفتیش کرنے والے افسران اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے محکمانہ طور پر تعریفی اسناد اور نقد انعامات دئیے جانے چاہئیں جبکہ ان کی تنخواہیں اتنی ہوں کہ انہیں سائلین سے مالی معاونت کی نوبت ہی پیش نہ آئے ان کے پاس سرکاری گاڑیاں اور جدید ترین وسائل دستیاب ہوں تاکہ انصاف کے عمل کو تیز ترین کیا جا سکے۔ اگر اٹک ضلع کی بات کریں تو اللہ نے ہمیں سید خالد ہمدانی کی صورت میں ایسا عوام دوست پولیس آفیسر دیا ہے جن کا مقصود سائلین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دینا اور بروقت مقدمات کے چالان پیش کرنا ہے تاکہ ملزمان کو جتنی جلدی ممکن ہو ان کے کیے کی سزا ملے اور معاشرے سے جرائم کے خاتمے میں بھی مدد مل سکے۔ اٹک کی ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان بھی مقدمات کو لٹکانے کے بجائے جلد ازجلد نبٹانے میں مصروف عمل ہیں، ہائیکورٹ کی جانب سے بھی ماتحت عدلیہ کے ججز کو مقدمات کی بروقت تکمیل اور جزاو سزا کی اہمیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں وکلاء کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے انہیں چاہئے کہ وہ سائلین اور عدلیہ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہوئے مقدمات کے جلد فیصلے کروائیں اس سے ناصرف لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی بلکہ وکلاء برادری پر بھی عوام کا اعتماد بحال ہو گا۔ سابقہ دور حکومت میں وکلاء زیادہ تر ہڑتالوں پر رہتے تھے جس سے عدلیہ کا وقت بھی ضائع ہوتا تھا اور سائلین بھی دلگرفتہ اور پریشان رہتے تھے ان پر مالی بوجھ بھی بڑھتا تھا اور مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی ۔ بینچ اور بار کے تعلق کو مثالی بنانے کے لئے باررومز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ایسے مثالی تعلقات ہی سے پرامن معاشرے تکمیل پاتے ہیں اور جلد انصاف کا میسر آنا بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ معاشرے کو چلانے کے لئے کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر جہاں انصاف نہ ملے وہ معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا پولیس، عدلیہ اور وکلاء کا کردار معاشرے کی تکمیل میں نہایت اہمیت کا حامل ہے جبکہ اسی تکون کی مدد سے معاشرے میں انصاف کا بول بالا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں