حاجی رئیس ایک باغ و بہار شخصیت———— حفیظ اللہ عثمانی

کوہاٹ سے پہلے وہ قبائلی علاقے میں قیام پذیر تھے ان کا خاندان زراعت اور مال مویشی کی تجارت سے وابستہ تھا کوہاٹ کا یہ مقام جس کو جرم کہا جاتا ہے اس وقت چند گاؤں پر مشتمل تھا اور آج آبادی کے لحاظ سے بڑھ کر وہ ایک بڑا علاقہ بن چکا ہے جہاں اب تقریبا 15سے 16 گاؤں آباد ہیں عجیب بات یہ ہے کہ پشتون روایات،ثقافت، اور مذہبی وابستگی کے باوجود بھی یہ علاقہ مسجد جیسی بڑی عظیم نعمت سے اب تک محروم تھا اس گاؤں اور آس پاس کے لوگ اگرچہ نماز ادا کرتے تھے لیکن باجماعت نماز کا اہتمام نہیں تھا پھر ایک فکر مند شخص کو اللہ نے توفیق عطا کی اور انہوں نے یہاں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد بنانے کے انتظام کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لی یہ شخص خود تو عالم نہیں تھے لیکن ان میں دینی ، اصلاحی ، تبلیغی ، تعلیمی اور تربیتی کام کا جذبہ موجود تھا پھر وہ مسجد نہ صرف آباد ہوئی بلکہ اس مسجد کے ذریعے اہل علاقہ میں تبلیغی ، اصلاحی اور تعلیمی کام کا شاندار طریقے سے آغاز ہوا ان کے بڑے صاحبزادے نے بتایا کہ ہمیں مسجد میں جو نصاب پڑھایا گیا اس کے اندر 6 کلمے، نماز کا سبق ایمانیات، عقائد اوراس کے علاوہ نماز جنازہ پڑھنے کا طریقہ اور دیگر ضروری تعلیم بھی بھی دی گئی ۔ بھائی طارق آفریدی بتاتے ہیں کہ ان اسباق کے ذریعہ ہماری نماز کی اصلاح ہوئی اور دیگر اعمال درست ہوئے بچپن کے یہ تعلیمی اور تربیتی مناظر میں کبھی نہیں بھول سکتا اور ہم نے جو کلمات اور اسباق وہاں یاد کیے آج بھی ہمیں وہ ازبر ہیں ان کی برکت تھی کہ میں اس دور میں مروجہ دینی نصاب بھی مختلف اساتذہ سے پڑھ سکا اور ہم سب کے اندر دین سیکھنے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوا تقریبا نصف صدی کے اس عرصے کے بعد آج اس گاؤں اور مقام پر ایک بہترین تعلیمی ادارہ کام کر رہا ہے جہاں اہل علاقہ کے بچے ،بچیوں ، نوجوان بچوں اور بچیوں کے لیے دینی تعلیم کا بہترین اور معیاری ادارہ قائم ہے اور اصحاب صفہ کے چبوترے کے طریقہ کار پر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری و ساری ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بزرگوں کی تبلیغی کام کی ترتیب اور فکر تھی اس میں اس قدر برکت ہوئی کہ تقریبا ہمارے علاقے کے تمام نوجوانوں نے اللہ کی راہ میں خوب خوب وقت لگایا اور سب کے سب تبلیغی تعلیمی اور اصلاحی کام سے جڑگئے پھر اس فکر کی ایک اور برکت یہ سامنے آئی کہ ہماری قوم میں سے علماء پیدا ہوئے اور حفاظ اکرام کی تو کثیرتعداد موجود ہے جبکہ ماشاءاللہ بہت سارے ہمارے بہن بھائی اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنا رہے ہیں ۔ اسی طرح دینی و عصری تعلیم کے شعبوں میں بھی نوجوان حیرت انگیز نتائج دے رہے ہیں ۔
ہمارا خاندان اس کے بعد اسلام آباد منتقل ہوا تو یہاں بھی جی سیون ٹو اسلام آباد میں قائم جامع مسجد نور السلام اور مدرسہ تعلیم الاسلام رجسٹرڈ میں خدمت، تعمیر و ترقی اور تعلیمی میدان میں کام موقع ملا وہ سلسلہ جو گائوں سے جاری ہوکر اسلام آباد تک پہنچا اب بھی جاری ہے اور جاری رہے گا ان شاءاللہ
والد گرامی حاجی رئیس احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے ساتھ دیار غیر میں محنت مزدوری کے سلسلہ میں تقریبا تیس سال مقیم رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے آبائی علاقے اور وہاں کے لوگوں کو فراموش نہیں کیا ماشاءاللہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اللہ کریم کو کیسے راضی کیا جائے اور مخلوق خدا کی کیسے خدمت کی جائے ۔
انہوں نے نہ صرف اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلی عصری تعلیمی اداروں سے بھی انہیں پڑھایا اور آج ان کے تمام بچے تجارت کے ساتھ خدمت خلق ، دعوت و تبلیغ ، اصلاح اور ارشاد کے کام سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ معاشرے کے اندر بہترین افراد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں
حاجی رئیس احمد خان رحمۃ اللہ علیہ کی فکر سے ان کے اپنے صاحبزادوں میں سے ایک صاحبزادے حافظ اورنگزیب قرآن مجید کے حافظ ہیں جبکہ دیگر نے ضروری دینی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ اللہ کے راہ میں بھی خوب وقت لگایاہے بلکہ بڑے صاحب زادے محمد طارق آفریدی اندرون اور بیرون ملک راہ خدا میں وقت لگانے کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ کی فکر میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں انہی ایام میں انہوں نے سات ماہ کی جماعت کے لئے روانہ ہونا تھا مگر والد گرامی کی علالت کے سبب مشورے کے ساتھ انھوں نے اس سفر کو فروری تک کے لیے مؤخر کر دیا تھا کس کو کیاخبر تھی، قدرت کو کیا منظور تھا کہ یہ سفر میں تاخیر بھی حاجی رئیس خان کی روانگی کا باعث ہے ۔بھائی طارق آفریدی کے ماشاء اللہ دو صاحبزادے حافظ قرآن بن چکے ہیں جبکہ تیسرا صاحبزادہ ہے قرآن مجیدحفظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے ۔
حاجی رئیس خان رحمت اللہ علیہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ہنس مکھ ہونے کے ساتھ ان کی طبیعت میں نرمی اور کشادگی تھی انہیں میں نے اپنے گھر کی ایک محفل میں دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے محفل میں موجود ان کی اولاد ان کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ بے تکلف ان سے گفتگو ہنسی اور مذاق میں مصروف ہیں اسی طرح وہ خود نہ صرف محفل کی جان بلکہ زینت محفل ہیں بے تکلف انداز گفتگو کے ساتھ لہجے میں شائستگی اور خوبصورتی ان کا طرہ امتیاز تھا
میرے والد گرامی مولانا پیر برکت اللہ ربانی اور حاجی رئیس خان رحمۃ اللہ علیہ کا آپس میں انتہائی دیرینہ تعلق تھا وہ مشکل وقت کے نا صرف قابل اعتماد ساتھی بلکہ ایک دوسرے کے دست و بازو بھی تھے اور آپس کا ایک مضبوط رشتہ قائم تھا اسی طرح ہمارا ان کے بزرگوں کے ساتھ اپنے بزرگوں جیسا تعلق اور ان کے صاحبزادگان کے ساتھ بھائیوں جیسا تعلق اور رشتہ شروع سے آج تک نہ صرف قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم سب ایک مشن اور کاز پر متفق ہے اور وہ کاز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا احسن انداز میں فروغ ہے ۔
ہر انسان اپنی دنیا کی زندگی میں اپنا خلاصہ نکالتا ہے اگر اس کی روح دیندار ہے تو وہ دینی اعتبار سے اپنی اولاد کے احوال کو دیکھتا پرکھتا ہے اگر تو وہ انہیں اس کسوٹی پر پورا پاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو شاداں و فرحاں پاتا ہے اور باقی ماندہ زندگی مطمئن طریقے سے گزارتا ہے اور اگر اس کی نظر میں صرف دنیا ہے تو وہ اپنی اولاد کی کامیابی میں دنیاوی اور مادی اعتبار سے فوائد کو پیش نظر رکھتا ہے ۔لیکن یہاں حاجی رئیس احمد خان رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادگان خصوصا بھائی محمد طارق آفریدی کی محنت کے سبب نہ صرف ان کی اپنی آل و اولاد نیک اور دینی اعتبار سے قابل رشک مقام پر فائز ہے بلکہ ان کے ارد گرد وابستگان عزیزواقارب اور دیگر افراد میں بھی انتہائی نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے اور دین کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔
مجھے بھائی طارق آفریدی کے ہمراہ ایک تبلیغی سفر کا موقع نصیب ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس جماعت کے اندر زیادہ تر لوگ ان سے تعلق والے اور عزیز و اقارب میں سے ہیں اور محنت کے جس انداز کو جس یکسوئی کے ساتھ دیکھا اور جس قدر ان ایام کو انتہائی قیمتی پایا وہ ناقابل بیاں ہیں ۔
گزشتہ رمضان میں برادر کبیر مولانا سیف اللہ ربانی صاحب نے بتایا کہ بھائی طارق آفریدی کے صاحبزادگان حافظ حمزہ آفریدی اور حافظ حذیفہ آفریدی کا تراویح کی نماز میں قرآن مجید کا مکمل ہے کیونکہ بھائی کا زیادہ تر اٹھنابیٹھنا آفریدی برادران کے ساتھ ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں بھی اس پروقار محفل میں شریک ہونا چاہتا ہوں انہوں نے بتایا کہ کوئی خاص محفل تو نہیں ہوگی بس اس موقع پر مختصرا وعظ و نصیحت اور اس کے بعد دعا ہوگی آپ بروقت تشریف لے آئیے گا تاکہ دعا میں آپ کی شرکت ہو جائیں پھر وقت مقررہ پر میں اس محفل میں شریک ہوا تو وہاں حاجی رئیس خان سے میری آخری ملاقات ہوئی وہ باغ و بہار شخصیت تھے محفل میں ان کے صاحبزادگان کے علاوہ عزیز دوست اور رشتہ دار بھی شریک تھے ایک سادہ سی پروقار محفل میں بھائی طارق آفریدی نے چند نصیحت آموز باتیں اس قدر خوبصورت انداز سے کیں کہ وہ باتیں آج بھی مجھے ذہن نشین ہیں حاجی رئیس خان ایک سائیڈ پر بیٹھے اپنی خوش قسمتی پر نازاں نظر آ رہے تھے کہ آج ان کے دو پوتوں نے قرآن مجید فرقان حمید نماز تراویح میں مکمل کیا تھا جبکہ ان کے بڑے صاحبزادے بیان فرما رہے تھے اور وہ سامعین میں سے تھے میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی اس موقع کی خوشی انتہائی دیدنی تھی وہ مسکرا بھی رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے کھلکھلا کے ہنس بھی رہے تھے اور دوسروں کو ہنسابھی رہے تھے محفل کشت و زعفران تھی سب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور دعاؤں میں گریاوزاری بھی تھی ۔
ابھی وہ محفل میں بیٹھے ان نوجوانوں میں سے ایک نوجوان نظر آ رہے تھے صحت بھی بلا کی تھی گفتگو اور اخلاق میں بھی کمال تھا محفل میں بیٹھے اکثر شرکاء نے سفید کپڑے اور سفید ٹوپیاں زیب تن کی ہوئی تھی یہ ایک نورانی ماحول تھا اور اس ماحول کو بنانے میں انہوں نے اپنی ذندگی صرف کی تھی۔
پھر ان حافظ قرآن پوتوں میں سے ان کے بڑے پوتے حافظ حمزہ طارق آفریدی کی شادی خیرآبادی گزشتہ دنوں ہوئی اس شادی کا بھی یہ عالم تھا کہ شادی کے شرکاء کی تعداد اگرچہ کثیر تھی مگر سادگی اور خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ سائونڈ سسٹم پر بھائی طارق آفریدی کے درینہ ساتھی مبلغ اسلام اور ملک کے معروف نعت خواں بھائی جنید جمشید رحمتہ اللہ علیہ کی نعتیں مسلسل چل رہی تھیں جس سے اندازہ ہوا کہ خوشی کے لئے طریقہ کار کا انتخاب آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ آپ حد سے تجاوز کرتے ہیں یا حدود میں رہتے ہیں ۔
یہ باغ و بہار شخصیت ہمیں غمزدہ چھوڑ کے اپنے رب کے حضور پہنچ چکی ہیں انہیں دنیا حاجی رئیس خان رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے اب یاد کرتی ہے وہ بھی اس مرض کے شکار ہوئے جس کے بارے میں علمائے کرام مفتیان عظام نے کہا ہے کہ اس سے وفات پانے والے شہید ہیں
یہ اللہ کے فیصلے ہیں انسان کو کوئی خبر نہیں کہ اس نے کتنا زندہ رہنا ہے اور کب اس دنیا سے جانا ہے موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن دنیا میں جو بھی آتا ہے انہوں نے جانا ہی جانا ہے اصل آخرت کی فکر آخرت کی تیاری ہے اور اطمینان والی موت آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے
وہ کافی عرصے سے بیمار ضرور تھے لیکن چند دن قبل ان کی طبیعت کافی حد تک بہتر ہو گئی تھی لواحقین کو یقین تھا کہ ابھی گھر لوٹ آئیں گے پھر جمعہ کی شب رات کے ٹائم ان کی خدمت پر مامور ان کے صاحب زادے حافظ اورنگزیب آفریدی سے حاجی رئیس خان نے فرمائش کی کہ مجھے تکے(بار بی کیو ) کھانے ہیں آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ اس وقت فوری طور پر تو دمبے کا انتظام کرنا مشکل ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں شنواری سے منگوا لوں جس پر آپ نے اجازت دی اور شنواری سے ان کے لئے تکے منگوائے گئے اور انہوں نے ڈاکٹروں کی موجودگی میں وہ تکے کھائے اس موقع پر بھائی طارق آفریدی آئی سی یو کے باہر موجود تھے جنہیں دیکھ کر ان کے والد گرامی نے آکسیجن منہ سے ہٹا کر اپنی خیریت کا ثبوت دیتے ہوئے ہاتھ بلند کیے اور کہا میں الحمدللہ خیریت سے ہوں اور اس کے بعد رات تقریبا تین بجے بھائی طارق آفریدی کو ان کے چھوٹے بھائی کا فون آیا کے والد گرامی رضائے الہی سے وفات پا گئے ہیں یہ جمعہ المبارک کی شب ہے اور تہجد کا وقت ہے ۔
طارق آفریدی صاحب ہسپتال پہنچے تو ان کے بھائی رو رہے تھے جنہیں انہوں نے سمجھایا کہ الحمد اللہ انہوں نے ایک قابل رشک اور باعمل زندگی گزاری ہے اور وہ نہ صرف اللہ کے فضل سے اچھے اعمال کر گئے ہیں بلکہ اپنے لیے بہت بڑا صدقہ جاریہ چھوڑ گئے ہیں ہمیں ان کے ایصال ثواب کے لئے اعمال کرنے ہیں اور انہیں شریعت مطہرہ کے مطابق جلد سپرد خاک کرنا ہے ۔
یوں نماز جمعہ کے فورا بعد توحید مسجد جی ٹین ٹو کے سامنے واقع پارک میں نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا جس میں علماء کرام، مشائخ عظام، دینی سیاسی سماجی تبلیغی اور اصلاحی شخصیات کے علاوہ تاجروں اور دیگر طبقات کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور ایک اللہ والے کی میت کو کندھا دیا ۔نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد دیکھ کر اہل خانہ بھی حیران تھے کہ اتنی تعداد میں مخلوق خدا کہاں سے آئی اور یہی بات اہل خانہ کے لئے اطمینان کا باعث بھی بنی ۔
تعزیت کے دوسرے اور تیسرے دن میں نے ملک بھر سے آئے ہوئے عوام کے جم غفیر کو دیکھا جن میں علماء طلباء سرکاری سماجی شخصیات اور دیگر طبقات بھی شامل ہیں اور ہر ایک کی زبان پر لواحقین کے لئے اطمینان کے الفاظ تھے اللہ کریم مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین
حاجی رئیس خان نے سوگواران میں نیک صالح اولاد اور متعلقین کو چھوڑا آپ کے پسماندگان میں صاحبزادگان بھائی طارق آفریدی، فاروق آفریدی حافظ زیب آفریدی، حافظ اورنگزیب آفریدی، عرفان آفریدی اور نعمان آفریدی دو صاحبزادیاں اور مرحوم کی اہلیہ محترمہ ہیں جو گزشتہ ایک عرصے سے بیمار ہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ان کی اہلیہ محترمہ کا سایہ ان کی اولاد پر تادیر قائم رکھے اور انہیں صحت کاملہ عاجلہ دائمہ مستمرہ عطا فرمائے جبکہ ان کی اولاد کو اپنے والد گرامی اور دیگر اقارب کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں