روایات کا ”امین”———–شاہد اعوان

سروانٹیز کہتا ہے ”قلم روح کی زبان ہے اور میں لوگوں کی روحوں کے قصے اس زبان میں بیان کرتا ہوں۔” وقت بے رحم ہے نہ رحم دل، یہ تقدیر کی مانند بے حس ہے، یہ موت کی طرح اٹل اور نہ زندگی کی صورت مستعار و ناپائیدار ہے، یہ پتھر کی طرح سخت ہے نہ رگِ گل کی طرح نازک، یہ سانپ کی طرح زہریلا ہے نہ شہد کی طرح میٹھا بلکہ وقت تو ایک آئینہ ہے جو کسی کو دھوکا نہیں دیتا اور دیکھنے والوں کو صحیح صحیح صورت دکھاتا ہے اس لئے اس کو بے وفا کہنا بذاتِ خود اپنی بد ذوقی اور بے بصری کا اعتراف کرنا ہے۔ وقت اگر سقراط کو حق بات کہنے اور اس پر اڑے رہنے کے گھونٹ حلق میں اتارنے کا حوصلہ نہ دیتا تو یقینا تاریخ کی کتاب میں کسی حاشیے پر بھی اس کا تذکرہ نہ ملتا، سقراط کو دائمی شہرت کا سزاوار ٹھہرانا وقت کا ایک ادنیٰ نمونۂ وفا ہے۔ جو لوگ وقت کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں وہ یقینا کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔
اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کا تذکرہ مقصود ہے جس نے میرے علاوہ کئی دوسروں کے دل و دماغ پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہوں گے، خیر اس شخصیت کا نام ملک امین اسلم ہے جو موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر کے منصب پر فائز ہیں ۔ بندۂ فقیر کی ایک کمزوری ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ دوستی یا تعلق داری کا کبھی قائل نہیں رہا ہاں البتہ صاحبِ مسند کا کوئی اچھا عمل یا عوام الناس میں اس کی پذیرائی کو دیکھ کر اس کے حق میں لکھنا اپنے اوپر فرض کر لیتا ہوں۔ ملک امین اسلم شرافت، دیانت اور بلند اخلاق کا مالک سیاستدان ہے ان کے والد ملک محمد اسلم مرحوم کو بہت قریب سے دیکھنے کے کئی مواقع ملے ان کی متانت اور دھیمے اندازِ گفتگو کا ہمیشہ قائل رہا۔ اس خانوادے میں سیاسی طور پر ملک امین اسلم غالبا پانچویں نسل کے فرد ہیں ان کے ساتھ زندگی میں سرِ راہ چند ملاقاتیں ضرور رہی ہیں خوشی غمی میں بھی کئی بار ان کے گائوں شمس آباد جا چکا ہوں لیکن موصوف کے ساتھ دوستی یا قربت کا ہرگز کوئی دعویٰ نہیں۔ بس ان کے ایک ‘عمل’ نے مجھے امین اسلم کا گرویدہ بنا دیا کچھ روز قبل ایک خبر نے میری نظر میں ان کی بلند کرداری، اعلیٰ روایات اور خاندانی وقار میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جی ٹی روڈ ہٹیاں کے مقام پر سابق وزیر داخلہ پنجاب کرنل(ر) شجاع خانزادہ شہید کی ایک قد آور تصویر ان کی شہادت کے بعد نصب کی گئی تھی جو کسی حادثے یا شرارت کی وجہ سے وہاں سے ہٹا دی گئی مگر جب اس بات کا علم وفاقی وزیر ملک امین اسلم کو ہوا تو انہوں نے فوری طور پر ڈپٹی کمشنر اٹک علی عنان قمر کو اسی مقام پر دوبارہ وہ تصویر لگانے کا حکم دیا۔ یہ بات علاقہ مکینوں کے لئے شاید اتنی اہمیت نہ رکھتی ہو تاہم موصوف کے اس ایک عمل نے بہت سے اہلِ دل اور کرنل شجاع شہید سے محبت کرنے والوں کی نظروں میں ان کے مقام و مرتبے میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور اس سے ملک امین اسلم کے سیاسی قد کاٹھ میں بھی یقینا اضافہ ہوا ہے ویسے بھی موصوف کابینہ کے ان چند احباب میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے اعلیٰ تعلیم و تجربے کی بنیاد پر ایسے محکمے کے سربراہ ہیں جو ملک وقوم کے لئے ایک بڑا اثاثہ ہے وہ محض حکمرانوں کی خوشنودی کے بجائے وزارتی ذمہ داریوں کی بجاآوری کو زیادہ مقدم سمجھتے ہیں جبکہ وہ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ اپنے حلقہ کی تعمیر و ترقی میں بھی نہایت خاموشی کے ساتھ سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔ ان کے شب وروز کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے حلقہ انتخاب کی خوشی غمی میں شرکت کو یقینی بناتے ہیں ملک کو سرسبز بنانے میں ان کا وژن ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف اور ہمہ گیر رہتے ہیں کہ انہیں سابقہ حکومتوں یا سیاسی مخالفین کے خلاف زہر اگلنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور یہی خصوصیت انہیں ان کے ہم عصر سیاستدانوں سے منفرد و ممتاز کرتی ہے اور اسی بل بوتے پر امین اسلم اپنی اعلیٰ خاندانی روایات کا حقیقی ”امین” قرار پاتے ہیں۔ گو کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کے عوامی خدمت کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے سیاست جیسے مشکل شعبے کا انتخاب کیا ہے وگرنہ وہ تن آسانی اور دولت کے پجاری ہوتے تو دنیا کے کسی بھی ملک میں اربوں ڈالر کمانے کی صلاحیتیں ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ عملی سیاست میں شرافت اور سیاسی مخالفین کے ساتھ حسن سلوک کو رواج دے کر آج ملک امین اسلم اٹک کے باکردار اور باوقار سیاستدانوں کی صف میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں