ٹیڑھا اونٹ نہ دیکھ، الو سیدھا کر ! ……………. قادر خان یوسف زئی

ماہ مارچ میں سینیٹ انتخابی عمل شاید ممکن ہو،اس بار 50 کے بجائے48 نشستوں پرانتخابات ہوں گے، 2021 کے بعد آنے والے سینیٹ الیکشن میں صوبائی انتخابات کے بعد (سابق فاٹا اراکین) کی مبینہ بارگین کی پوزیشن ختم ہوجائے گی، جو وہ ایک گروپ بنا کر سینیٹ کے طے شدہ طریقہ کار کے پہلے، ووسرے اور تیسرے ووٹ(چوائس) دیتے تھے، جس سے ایک مخصوص گروپ کامیاب ہوجاتا (سینیٹ میں ایسا ہوتا رہا ہے)۔ یہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی ایک بدترین صورتحال ہے، ممکن ہے کہ قبائلی علاقے سینیٹ کے اگلے انتخابات میں صوبائی نشستوں کی تعداد کے مطابق حصہ لیں۔
پی ٹی آئی قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بظاہر مضبوط پوزیشن میں ہے کہ وہ سینیٹ میں اپنے امیدواروں کو کامیاب کراسکتی ہے، لیکن انتخابی نظام پر گہری نظر رکھنے والوں کو گمان ہے کہ مارچ میں سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی پھر بھی اکثریتی پوزیشن میں،شاید نہ آسکے، پی ٹی آئی کو 49 اور حزب اختلاف کو 51 نشستیں ملنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں، کیونکہ سینیٹ انتخابات ایک گنجلگ طریقہ کار ہے، اس لئے شنید یہی ہے کہ عمرا ن خا ن کوتحفظات ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ اراکین گیم کرسکتے ہیں، جب خیبر پختونخوا میں بقول ان کے 20ارکین نے کروڑوں روپے رشوت لی تھی، انکوائری ہوئی،انہیں نکالا گیا، لیکن ان کے خلاف62/63 کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی کہ وہ آئندہ کبھی ملکی انتخابات میں حصہ نہ لیں۔
سیاست میں بہت لچک ہوتی ہے، خاندانی دشمنی یا ذاتی عناد اپنی جگہ، لیکن سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا، سیاسی پنڈتوں کے مطابق عمران خان نے جن اراکین کے گردنوں میں طوق ڈالا تھا، وہ اسے توڑنے کی کوشش کررہے ہین، یہ مخفی نہیں رہا کہ پی ٹی آئی نے جس طرح آزاد اراکین کو اپنا ہم نوا بنایا اور پرائیوٹ جہاز،ہیلی کاپٹر، چنگ چی بن کر گھنٹوں میں پہنچ جایا کرتے تھے، اب بیشتر اراکین ’ حلوہ وہ بھی اصلی گھی اور بادام والا‘ کا کھلم کھلامطالبہ کررہے ہیں، ایک تو انہیں من پسند وزراتیں نہیں ملی، جنہیں ملی تو اسکینڈلزکی چڑیلیں، دوم: سینیٹ کی مارکیٹ تو ہے، گھوڑے فروخت کرنے و خریدنے کے لئے۔ ان کا ماننا ہے کہ اپنے ضمیر کو کئی بار فروخت کرنے کے بعد وعدہ فردا پر اعتبار کیوں کریں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کے پاس کھونے کے لئے بچا ہی کیا ہے، صدر آصف زرداری بس بلاوجہ کیوں چوک گئے، ورنہ بلوچستان و سینیٹ میں تیسری قوت کی حمایت نہ کرتے تو آج وفاقی وزیر داخلہ جلسوں میں ان کی ضماتوں کی تو ثیق کے راز افشا نہ کررہے ہوتے، ممکن ہے کہ زرداری کے ساتھ گیم ہوگیا ہو، بڑھاپا و بیماری بھی اکثر عجلت میں سوچنے سمجھنے میں رکاؤٹ پیدا کردیتی ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سازیوں میں تیسری قوت پر”چوتھی قوت“ حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ کوٹلی میں وزیراعظم کا یوم کشمیر یک جہتی کی تقریر میں ’پہلی بار‘ حکومتی سربراہ اعلان کررہا ہے کہ تھرڈ آپشن قبول کیا جاسکتا ہے۔انہیں شاید پاکستان کی تاریخ کا بھی علم نہ ہو کہ بھارت نے1948میں ریفرنڈم کرانے کے لئے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو تسلیم کیا تھا، جس میں یہی طے ہوا تھا کہ کشمیری قوم بھارت، یا پاکستا ن کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔
پاکستان نے آج تک کشمیر سے دستبرداری کے آپشن کوتسلیم نہیں کیا، قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اوراٹوٹ انگ قرار دیا۔ پھر اس قسم کے غیر ذمے دارانہ بیان نے ریاستی حلقوں میں بھی ے چینی کو ہوا دی ۔ بظاہر لگتا ایسا ہی ہے کہ جیسے عمران خان کسی بھی صورت میں دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں اور دوسری جانب مبینہ طور پر عوام میں خدشات ابھر رہے ہیں کہ شاید دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کے بعد حزب اختلاف کی دیگر سیاسی قیادتوں کے لئے ایوانوں کو نو گو ایریا بنا دیا جائے گا، جیسے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت، جو آئندہ آئینی ترمیم کے بغیر وزیراعظم نہیں بن سکتے۔
شنید ہے کہ مملکت میں ایک جماعتی نظام لانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، سینٹ میں پی ٹی آئی کی شکست یا کامیابی، دونوں ہی نازک حالات کی نشان دہی کررہے ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اَنا پرستی کو مملکت کی بقا پر حاوی نہ ہونے دیں، بلکہ انتخابی اصلاحات کے علاوہ اب کوئی دوسرا کام ہی نہیں کیا جائے۔ وزیراعظم یا صدر کے تیسری بار منتخب ہونے پر پابندی عاید کی جائے، ہر ریاستی ادارے کی طرح، سیاست دانوں کی ریٹائرڈمنٹ کی عمر تعین کی جائے، خصوصی نشتوں پر براہ راست منتخب ہونے کا قانون ختم کیا جائے، ترقیاتی فنڈ آئین ساز اداروں کے بجائے بلدیاتی نمائندوں کو دیا جائیں، وزیراعظم کا انتخاب براہ راست عوام اپنے ووٹوں سے کریں، مجلس شور ی و کابینہ کی تعداد کم کریں۔ حلقہ بندیا ں، ووٹر لسٹ، نادرا کے تعاون سے ازسرنو کی مرتب ہوں، مستقل ایڈریس پر مبنی شناختی کارڈوں پر ڈومی سائل اور پی آر سی نادراجاری کرے، شناختی کارڈ میں عارضی شناختی ایڈریس کے بجائے مستقل ایڈریس کا اندراج ہو، سینیٹ، قومی، صوبائی اور بلدیاتی نمائندوں کو اُس ہی حلقے سے لڑنے کی اجازت دی جائے، جہاں وہ کم ازکم دس برس مستقل آباد ہوں،ایک امیدوار کا کئی نشستوں پر کھڑے ہونا، قومی خزانے کا ضیاع ہے، اس قانون کو ختم کیا جائے، انتخابی اخراجات کی حد کم ازکم کی جائے، اسے اشرافیہ کا انتخاب نہ بنایا جائے۔
انتخابی اصلاحات کا جدید قاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا، بظاہر مشکل ہے، لیکن جس طرح ہم ترقی یافتہ ممالک سے ادھارلیتے ہیں، ایک برس کے لئے ان کا انتخابی سازو سامان بھی لے لیں تو کیا فرق پڑ جائے۔ ریٹائرڈ بیورو کریٹس و افسران کو دوبارہ سیاسی سرکاری ملازمت نہ دی جائے، بلکہ ان قابل افسران کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے۔ سینیٹ میں ایک ترمیم کے لئے تین تین جگہ تکے مارنے کی کیا ضرورت ہے، بلکہ ایسا کریں کہ ایک ہی بار آرڈیننس جاری کرکے، حکومت کے نزدیک جتنے چور ڈاکو ہیں، انہیں جیل بھیج دیں، بس خدا کے لئے عوام کے لئے کچھ توکریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں