مٹی کا قرض چکانے والے ————شاہد اعوان

ملک میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء نیا نافذ ہوا تھا جب اٹک کے دورافتادہ ایک چھوٹے سے گائوں’ چھجی’ کا فرزند پاک فوج کا تربیت یافتہ عبدالمالک جہاز میں سوار تھا کہ اچانک مسافروں میں سے ایک شخص اٹھا اور اسلحہ لہرا کر اپنے ہائی جیکر ہونے کا اعلان کرنے لگا کہ وہ جہاز اغواء کر کے انڈیا لے جائے گا ۔ یہ منظر دیکھنے اور ہائی جیکر کا منصوبہ سننے کے بعد جہاز کے تمام مسافر سہم گئے اور دل ہی دل میں اللہ سے زندگی کی دعائیں اور التجائیں کرنے لگے بعض خوف کے مارے رونا شروع ہو گئے اور کلمے کا ورد کرنے لگے۔ عبدالمالک بھی انہی مسافروں میں شامل تھا وہ اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنے لئے حوصلے اور ہمت کی دعائیں مانگ رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد جب ہائی جیکر قدرے مطمئن ہو گیا کہ حالات اس کے قابو میں ہیں اور مسافر ، جہاز کا پائلٹ اور عملہ بھی اس کی بات بغور سن رہے ہیں تو اس نے مسافروں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں ۔ اسی اثناء میں نہتے عبدالمالک نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہائی جیکر پر حملہ کر دیا جس کے ہاتھ میں ہینڈ گرنیڈ تھا، عبدالمالک نے ہائی جیکر کو قابو کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ بم سے زیادہ سے زیادہ نقصان ہائی جیکر اور اسے ہو باقی مسافروں اور جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ چنانچہ اس کا یہ دائو کارگر ثابت ہوا اور توقع کے عین مطابق ہائی جیکر کے ساتھ وہ بھی زخمی ہوا جبکہ مسافر اور جہاز نقصان سے بچ گئے اور پائلٹ نے جہاز بحفاظت ایئر پورٹ پر اتار لیا۔ مغوی جہاز کو ہائی جیکر سے بچانے والے ہیرو عبدالمالک کو سی ایم ایچ میں داخل کرا دیا گیا جسے ملنے کے لئے جنرل ضیاء الحق خود آئے اور عبدالمالک سے اس ناقابل فراموش کارنامے کے بدلے اس کی خواہش دریافت کی کہ آپ جو مانگتے ہو مانگو۔ عبدالمالک نے جواب میں ذاتی جاگیر اور مراعات مانگنے کے بجائے اپنے پسماندہ گائوں کوٹ چھجی کے لئے پختہ سڑک اور بجلی کی فراہمی کی درخواست کی۔ اس زمانے میں میڈیا تو تھا نہیں صرف اخبارات تھے اور وہ بھی محدود، تاہم اخباروں میں ان کے اس دلیرانہ اقدام اور جذبے پر خبریں، تبصرے اور کالم لکھے جاتے رہے ۔ عبدالمالک کو پی آئی اے نے تاعمر اعزازی ملازمت دے دی اور انہیں آخری دم تک تمام مراعات بھی ملتی رہیں۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت کے چیئرمین پی آئی اے ایئر مارشل نور خان کے ساتھ پیش آیاجب ایک جہاز اغواء ہو گیا اور ہائی جیکر اپنے مطالبات منوا رہے تھے انہوں نے کچھ مسافروں کو مار کر جہاز سے باہر بھی پھینک دیا تھا کہ اسی دوران سیکورٹی اہلکاروں اور کمانڈوز کے منع کرنے کے باوجود ایئر مارشل نور خان صفائی کرنے والے کے بھیس میں جہاز کے اندر داخل ہوگئے اور کمال مہارت سے ہائی جیکر پر قابو پا لیا یوں وہ سینکڑوں مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد سے پی آئی اے کے طیاروں میں فلائٹس کے دوران سیکورٹی کے لئے کمانڈوز موجود رہتے ہیں۔ مذکورہ واقعات بیان کرنے کا مقصد اپنے وطن کی محبت اور اپنی مٹی کا قرض چکانے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔ اٹک ہو یا تلہ گنگ، یہ علاقے ‘مارشل’ علاقے مانے جاتے ہیں ان علاقوں کے قبرستان غازیوں اور شہداء سے بھرے پڑے ہیں جو اپنی مٹی کا دفاع کرتے کرتے جانوں کا نذرانہ دینے سے کبھی گبھرائے نہیں یہی وجہ ہے کہ ان سرفروشوں کے جوش وجذبے اور جرأت و بہادری کے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی ان کی دلیری اور جوانمردی کے معترف نظر آتے ہیں۔ تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار ملک محمد ایوب انڈیا کے دورے پر گئے تو انہیں اندراگاندھی کے گھر کا دورہ کرایا گیا جو اب ایک میوزیم میں بدل چکا ہے، بتایا گیا وہاں اندرا گاندھی کی فیورٹ شخصیات میں ایئر مارشل نور خان کی تصویر بھی آویزاں تھی ۔ گزشتہ روز اسی مٹی کے موضع موگلہ جو بظاہر ایک غیر معروف سا گائوں ہے، کے ایک نوجوان باکسر احمد مجتبیٰ اعوان نے بھارتی مدمقابل کو صرف56سیکنڈ کے اندر ناک آئوٹ کر دیا۔ دنیا بھر میں اس نوجوان باکسر کو سراہا گیا ہے جبکہ تلہ گنگ میں ایک سماجی تنظیم نے اس نوجوان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا جس میں ڈپٹی کمشنر چکوال کیپٹن(ر) بلال ہاشم، اسسٹنٹ کمشنر تلہ گنگ حافظ عمران کھوکھر کے علاوہ ایم این اے فوزیہ بہرام، کرنل (ر) سلطان سرخرو، ملک یاسر آف دندہ، صدر بار ملک ریاض موگلہ، ملک بلال سلیم، سید صفدر شاہ گیلانی اور میزبان سید سجاد گیلانی، ملک محمد الٰہی سمیت تحصیل بھر سے دیگر شخصیات شریک ہوئیں۔ احمد مجتبیٰ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ حکومتی سطح پر انہیں کوئی پذیرائی نہیں ملی ۔ احمد مجتبیٰ! آپ گبھرائو نہیں حکومت کے پاس آپ جیسے قابل فخر نوجوانوں کی پذیرائی کے لئے وقت ہی کب ہے انہیں اپوزیشن کو طعنے اور گالیوں سے فرصت ملے گی تو کچھ اور نظر آئے گا۔ حکومتیں تو ایک طرف چھوٹے علاقوں کے رہنے والوں کو میڈیا بھی پذیرائی نہیں دیتا ہاں یہ باکسر کسی بڑے شہر کا ہوتا تو میڈیا زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہوتا۔ ہماری مقامی قیادت اور سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس قومی ہیرو کے شایانِ شان تقریب منعقد کریں اور موگلہ گائوں کو مثالی گائوں کا درجہ دیا جائے اس سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر بھی اس قومی ہیرو کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں مٹی کا قرض اتارنے والے ایسے احمد مجتبائوں اور عبدالمالکوں پر ہمیشہ فخر رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں