روسو اور والٹیئرکا معاہدہ عمرانی اور ہماری ذمہ داری——-نثار کیانی

جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس کی بہترین صورت میں وسائل کی تقسیم اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا ہوتا نظر ہی نہیں آتا۔ نتیجہ یہ کہ وسائل کی اسی نامناسب سماجی تقسیم کے باعث معاشرے میں غربت،بے چینی، مایوسی اور افراتفری پھیلتی ہیں اور پھر بے روزگاری اور ایسے ہی دیگر عوامل کے سبب معاشرے میں چوری، قتل، دھوکا دہی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ غربت ہی جرائم کی جڑ ہے۔حکومت کے ساتھ عوام کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے یہ بات اکثر سننے کو تو ملتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، کچھ لوگ اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور اکثریت یہی سوچتی رہ جاتی ہے کہ ذمہ داریاں حکومت ہی پوری کرے۔ جو لوگ اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ان میں باغ آزادکشمیر میں تعینات آزادکشمیر پولیس کے دو اعلیٰ افسران شامل ہیں جن کی دریا دلی اور سخاوت کے تذکرے آج کل زبا ن زدعام ہیں ۔پولیس کے دونوں افسران ایس پی مرزا زاہدحسین ، اورڈی ایس پی سردار محمد شفیق خان نے بیروزگاراور مفلوک الحال محنت کشوں کیلئے لنگر خانہ کھولا ہے۔ میری والدہ محترمہ جو عمر کی 9 دائیاں دیکھ چکی ہیں اکثر ایک قصہ سناتی ہیں ہے، جس کے مطابق آج سے چالیس 50 سال قبل ہمارے علاقے میں قحط سالی کا سماں ہوتا تھا جو لوگ سفید پوش ہوتے تھے ۔ آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا تھا ،مقامی لوگ زراعت اور مال مویشیوں کی دودھ ، لسی ، مکھن دہی گھی وغیرہ پرانحصار کرتے تھے ۔اگر کسی کے پاس کھانا پکانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ دوپہر کو اپنے گھر وں میں تندور جلاتے تھے ،تاکہ دور آبادی میں پھیلے ہوئے مکان سے دھواں اٹھتا دکھائی دیکھ کر لوگ سوچیں کہ آج ان کے گھر کھانا پکا ہے ،والدہ بتاتی ہیں کہ دوپہر کو کئی بار تندور میں لکڑیاں جل کر راکھ ہو جایا کرتیں تھیں لیکن روٹیاں نہیں پکتی تھیں ۔غربت اور مفلسی اس قدر تھی کہ لوگ ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے ،تندور جلانے کی وجہ تسمیہ یہ ہوتی کہ ان کی سفیدپوشی کا بھرم قائم رہے جبکہ ایک وقت کا کھانا کھا کرکے بھی کہیں وہ خیر کے منکرین میں نہ شمار ہو جائیں ۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی تاکہ وہ بہتر سے بہتر فیصلہ کرسکے لیکن اس سارے عمل کے لئے اس کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے ۔موجودہ عہد میں بھی پیسے کی طلب نے سماج کو آلودہ کر دیا ہے لیکن اس سے امیر طبقے پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن غریب کی پہنچ سے روٹی دور ہوتی جارہی ہے اور غریب اس کے خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔شاید ضلع باغ میں تعینات ان دونوں درد دل رکھنے والے پولیس افسران نے یہی محسوس کیا اور ان سے رہا نہیں گیا، جس کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی تنخواہ سے غریب بیروزگاراور مفلوک الحال لوگوں کے لئے کھانے کا بندوبست کروں گا ۔دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کا لفظ انس سے نکلا ہے اور انس محبت سے تعبیر ہے اور اگر محبت کے خمیر سے اٹھا یا گیا انسان ، دردِ دل کو چھوڑ دے تو انسانیت ناپید ہو جاتی ہے۔ پھر انسان ، انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان ہو جاتا ہے۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہمارے آ با ء نے دردِ دل کے وہ دل آویز قصے چھوڑے ہیں جن پر آج بھی ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہماری تاریخ آج بھی دشمنوں کے بچوں، بوڑھوں، عورتوں کو امان عطا کرتی ہے۔کہ ہم آج بھی قتل کے بدلے قتل پر معاف کر نے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کہ ہم فاتح بن جائیں تو دشمن کی فصلیں نہیں اجاڑتے۔ عورتوں کو بیوہ نہیں بناتے۔عزتوں کو تاراج نہیں کرتے۔ بلکہ جہاں جہاں سے گزرتے ہیں ہماری بڑوں کی مورتیاں بنا کر لوگ ان کی پو جا کرنے لگتے ہیں کیونکہ انسانیت یہی ہے کہ دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ اطا عت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں۔کہتے ہیں نقلاب فرانس کے بعدجب بادشاہ کوجیل بھیجا گیا تو وہ بار بار ہاتھ مل کر ایک بات افسوس سے کہتا تھا مجھے سوشلزم کے دعوے دار روسو اور والٹیئر کی تحریریں لے ڈوبیں کاش کہ میرے وطن میں بھی کہیں سے روسو اور والٹیئر آجائیں کہ جن کی تحریروں سے میرے وہ ہم وطن جو ذلتوں کی چکی میں بے گناہ پسے جا رہے ہیں، جن کی زندگیاں گلیوں میں آوارہ گھومنے والے جانوروں سے زیادہ بدتر بنا د ی گئی ہیں جو خون تھوکتے ہوئے بھوکے پیاسے بے وجہ بے وقت مرے جا رہے ہیں جو بے کفن اپنی اپنی قبروں میں جا لیٹ رہے ہیں جاگ جائیں، اٹھ کھڑے ہوں اور چلا چلا کر بولیں کہ ہم بھی انسان ہیں، ہمیں بھی جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ تمہیں ہے۔جو اپنے حق کے لیے بغاوت کر دیں اور پھر جب میرے وطن کے لٹیرے، غاصب، ظالم، چور،کرپٹ جیل جا رہے ہوں تو وہ بھی بار بار ہاتھ مل کر افسوس کے ساتھ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں بھی روسو اور والٹیئرکی تحریریں لے ڈوبیں۔ شاہکار تصنیف معاہدہ عمرانی 1762 میں ایمسٹرڈیم سے شایع ہوئی فرانس سے اس لیے نہیں چھپی کہ فرانس میں حکومت کا سنسر شپ اسے برداشت نہیں کرسکتا تھا معاہدہ عمرانی اس تاریخی جملے سے شروع ہوتا ہے جو ضرب المثل بن کر دنیا میں چاروں طرف پھیل گیا اور غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی چنگاریاں اڑنے لگیں، جملہ یہ تھا ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے جدھر دیکھو وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے” شیلے،کیسٹس، بائرن اورکولرج اس کی رومانویت سے متاثر ہوئے گوئٹے نے اثر قبول کیا۔ہمارے معاشرے میں ایک ایسا سناٹا ہے کہ دل گھبرا جاتا ہے ایسا اطمینان ہے کہ باربار رونے کو دل چاہتا ہے لوگ ایسے بے بس ہوئے ہیں کہ سوچنے اور سمجھنے تک کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں وہ اس زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی تک کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ان کے نزدیک زندگی بس یہ ہی ہے اجڑی، برباد، تباہ شدہ اور زنگ آلود۔ دن بھر ذلتیں سہنا اور رات بھر زار و قطار رونا۔ اپنے آپ کو مارنا اور پیٹنا کیا ہم سب بھی اپنے سے پہلے کے لوگوں کی طرح اسی حال میں مر جائیں گے،کیا ہمارے خواب، ہماری خواہشیں، ہماری آرزویں، پوری ہوئے بغیر ہمارے ساتھ ہی مرجائیں گی۔ کیا ان سب کی قبریں ہماری قبروں کے برابرکھودی جائیں گی؟ کیا ان المیوں کی ذمے داری ہم پر عائد ہو گی یا پھر یہ گلا سڑا اور غلیظ نظام ذمے دار ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے ہم جنہیں چھوڑے جائیں گے وہ ہمیں برا بھلا کہیں گے یا پھر اپنے آپ پر ماتم کریں گے؟ کیا وہ بھی ہماری ہی طرح تاریک راہوں میں مارے جائیں گے؟ کیا وہ بھی ہماری ہی طرح ذلتوں بھر ی زندگی جئیں گے؟ روسو اوروالٹیئرکا انتظار کرتے ہوئے۔ میرے لئے مرزا زاہدحسین ، اورڈی ایس پی سردار محمد شفیق خان پولیس میں نئے نام نہیں لیکن ان کا کام نیا ضرور ہے ۔ سنا ہے باغ میں قائم کردہ ان کیلنگر خانے میں مستحقین کو نہایت احترام اور عزت کے ساتھ بے حد اعلی طعام کھلایا جاتا ہے۔ ریاست بھی اگر ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دے تو یہ خوشی کی بات ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں