عذاب الہی یا کرونا…………وقاص منیرچوہدری

اگر کسی ایک فرد پر اللہ کی طرف سے کو ئی آفت آئے تو وہ عذاب نہیں اللہ کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ انسان اس پر صبر کر تا ہے اور ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں تاہم اگر پوری بستی ،علاقے ،قبیلے یا امت پر کوئی آفات آ جائے تو وہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے اور اللہ کا عذاب ایسی صورت میں نازل ہو تا ہے جب اجتماعی سطح پر اللہ اور اس کے رسولۖ کی نافرمانی کی جائے اللہ کے ایسے عذاب کا سب سے درناک پہلو یہ ہے کہ اس کا شکار گناہ کاروں کے ساتھ ساتھ نیک لوگ بھی ہوتے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے جب بھی کسی قوم پر عذاب آیا ہے اس سے قبل اس قوم کی جانب رسول بھیجے گئے ہیں اور نافرمان قوموں کو خدا کے عذاب سے ڈاریا گیا ہے لیکن جب بات امت محمدیہۖکی آئی تو اللہ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رو رو کر دعائیں کی اور اللہ کریم سے اپنی امت پر استیصال(جڑ سے اگڑنے والا عذاب)نہ نازل کرنے کا وعدہ لیا ۔جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالی کا وعدہ کیا کہ آ پۖ کی امت کو مجموعی طور پر پہلی امتوں کی طرح عذاب سے دوچار نہیں کریں گے، لیکن کیا جناب نبی کریمۖ کی دعا اور اس پر اللہ تعالی کے وعدے کا مطلب یہ ہے کہ امت ہر قسم کی سزا، عذاب، تنبیہ اور سرزنش سے محفوظ ہو گئی ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس کی برکت سے امت کو مجموعی طور پر عذاب سے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالی کی طرف سے وعدہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے، جبکہ مختلف احادیث مبارکہ میں اس امت پر آنے والی مصیبتوں، آزمائشوں اور تنبیہات کا ذکر بھی موجود ہے جن میں سے صرف ایک کا تذکرہ موجودہ صورتحال کا اندازہ کرنے کے لیے شاید کافی ہو۔حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت منقول ہے کہ جناب نبی اکرمۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جائے گا، امانت کے مال کو غنیمت سمجھ لیا جائے گا،زکوة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے گا،دین کے مقصد سے ہٹ کر تعلیم حاصل کی جائے گی، ایک شخص بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے گا،دوست کو قریب اور باپ کو دور کر دے گا،مسجدوں میں شوروغل بلند ہونے لگے گا ،قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو گا،قوم کا لیڈر سب سے رذیل آدمی ہو گا،کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی ،ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے، شرابیں پی جائیں گی ،امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ تو پھر سرخ آندھی، زلزلوں ، زمین میں دھنسائے جانے ، شکلیں بدل جانے ، اور پتھروں کے برسنے کے انتظار میں رہنا۔ اور پھر ایسی لگاتار نشانیاں سامنے آئیں گی دوسری جانب اللہ رب العزت نے سورة یونس میں ماضی کی متعدد اقوام کی سرکشی اور ان پر نازل ہونے والی تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک قوم کے سوا ساری سرکش قومیں اپنی سرکشی پر قائم رہیں اور عذاب کا شکار ہوئیں۔ البتہ ایک قوم جو بچ گئی جو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم تھی جس پر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور جھک گئے اور توبہ و استغفار کر کے حضرت یونس پر ایمان لے آئے جس پر ان سے وہ وقتی عذاب ٹل گیا،آج امت مسلمہ پر بھی کرونا کی شکل میں عذاب الہی نازل ہورہا ہے آج پاکستان سمیت امت مسلمہ میں اجتماعی طور پر اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے ملاوٹ سر عام ہو چکی
ہے بازاروں میں عورتیں نیم برہنہ حالت میں نمائش کے لیے پیش ہیں ایسی صورتحال میں اللہ کا عذاب کیوں نہ آئے اگر چہ امت محمدیہۖ پر استیصال والا عذاب نہ آئے گا تاہم ہمیں جھنجھوڑ نے کے لیے مختلف اشکال میں عذاب الہی نازل ہوتے رہیں گے ایک اسلامی معاشرے میں مسلسل نافرمانیاں، قرآن و سنت سے روگردانیاں عذابِ الہی کا موجب بنتی ہیں۔ قتل و غارت گری، آئے دن زلزلے، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، چوریاں، ڈکیتیاں، زنا معاشرے کی بڑی خرابیاں ہیں جن کا ازالہ کیے بغیر سکون ناممکن ہے، اور ان سب معاشرتی برائیوں کا ارتکاب عذابِ الہی کو دعوت دیتا ہے، جس کی وعید قرآن میں بار بار آئی ہے۔ پاکستان میں ان تمام برائیوں نے مکمل طور پر قبضہ جما لیا ہے۔ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے، جب تک پاکستان ان تمام برائیوں سے نجات نہیں پائے گا یہ تمام آفاتِ زمینی و آسمانی آتی رہیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں