افغان عبوری حکومت۔۔؟ …………… قادر خان یوسف زئی

دوحہ معاہدے کے بعد امریکی افواج کی واپسی اعصاب شکن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ افغانستان میں مستحکم امن، پاکستان سمیت کئی پڑوسی ممالک کے مفاد میں ہے۔ کابل انتظامیہ کو امریکا کی جانب سے دوٹوک پیغام بھی مل چکا کہ کسی پیشگی شرط کے بغیر عبوری حکومت کے قیام کو منظور کرنا ہوگا۔ عبوری حکومت کے قیام کی تجویز امریکا کی جانب سے دی گئی ، جس کے بعد افغان اسٹیک ہولڈرز نئے نظام و انصرام پر بات چیت کے لئے آزاد ہوں گے۔ امریکی افواج کے مکمل انخلا اور عبوری حکومت کے قیام کو ناگزیر سمجھا جارہا ہے، کیونکہ جب افغان طالبان کے سامنے کوئی مزاحمت کرنے والا ہی نہیں ہوگا تو وہ کس کے خلاف جنگ کریں گے، افغان طالبان پر لازم ہوجائے گاکہ فائر بندی کریں۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس پر عالمی برداری بھی غور کررہی ہے کہ افغان طالبان اگر کسی بھی فریق کے خلاف جنگ کررہے ہیں، تو اس کی جو وجوہ بیان کرتے ہیں، وہ وجہ جواز ہی ختم ہوجائے تو خطے میں امن کی راہ ہموار ہونے میں مدد ملے گی۔
کابل انتظامیہ کی جانب سے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پر اعتراض یا شکوک و شبہات کا اظہار اُس وقت سامنے آیا تھا جب وزیراعظم عمران خان نے جون 2019کو باجوڑ میں تقریر کے دوران کابل انتظامیہ کو الیکشن سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا مشورہ دیا تھا۔ وزیراعظم کی اس تجویز پر کابل انتظامیہ کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا، جس پر جمرود میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے وضاحت کی کہ ”میں نے تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہی تھی،ان کا مزید کہنا تھا کہ نگران حکومت سے انتخابات کرانے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوتے ہیں، جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، اور یہ کہ انہوں نے یہ مشورہ اسی بنیاد پر دیا تھا“۔کابل انتظامیہ کی جانب سے سازگار ماحول کو خراب کرنا وتیرہ بن چکا، یہی وجہ ہے کہ خطے میں امن کے کئی مواقع کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ضائع ہوئے۔ اب چونکہ امریکی افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ نزدیک آچکی ہے، جس کے بعد یہ امریکی انتظامیہ پر منحصر ہوگا کہ وہ اپنے چند ہزار فوجیوں کے ساتھ اُن افغان طالبان سے لڑنے کے لئے تیار ہیں، جنہیں 19برسوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی ہونے کے باوجود شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
امریکی تجویزپر افغان صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ بادی ئالنظر لگتا ہے کہ امریکا، افغانستان کی جنگ سے نکلنے کا مصمم ارادہ کرچکا، ذرائع کے مطابق افغان طالبان موجودہ حکومت کے خاتمے اور عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہیں، عبوری حکومت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو متناسب نمائندگی ملے گی۔ صدر غنی بھی اپنی ایک تجویز منظر عام پر لاچکے ہیں کہ وہ عبوری حکومت کے بجائے الیکشن کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں، براہ راست عبوری حکومت کی تشکیل کے بجائے بیلٹ کے ذریعے صدارتی انتخاب کرائے جائیں تو وہ استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ان کی یہ تجویز ترکی کانفرنس میں لے جانے سے قبل ہی مختلف افغان دھڑوں نے مسترد کردی۔ جس کے بعد امریکا، روس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان عبوری حکومت پر متفق ہونے کے بعد، افشا ہونے والی تجویز پر عمل درآمد کرانے کے لئے اشرف غنی پر دباؤ بڑھ چکا۔ دراصل افغان صدر نئے انتخابات کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر غیر ملکی افواج کو امن کے نام پر نگرانی کے لئے مزید قیام دینے کی خواہش رکھتے ہیں، ان کی تجویز کے مطابق انتخابی مرحلے کی عالمی سطح پر نگرانی پر زور دیا گیا ہے، اس طرح غیر ملکی افواج کی موجودگی برقرار رہے گی۔
افغان طالبان، غیر ملکی افواج کی واپسی سے قبل کسی نئے صدارتی انتخابات یابیلٹ کے ذریعے انتخابی مہم چلا نے کی کسی تجویز کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں،عبوری حکومت کی تجویز پر اتفاق رائے کی وجہ سے امریکی حاشیہ بردار حکومت کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ گو کہ ماضی میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغان دھڑوں پر مشتمل حکومت کا تجربہ ناکام رہا ہے، بدترین خانہ جنگی و انارکی کی وجہ سے ہی افغان طالبان کی تحریک وجود میں آئی، ملا عمر مجاہد کی قیادت میں متحارب افغان دھڑوں کو بزور طاقت روک کر پسپا کیا گیا اور پانچ برس تک افغان طالبان کی حکومت رہی، ان کے حکومت کے دوران ہی نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اورپھر اسامہ بن لادن کو حوالے نہ کرنے پر امریکا و نیٹو ممالک نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ امریکا کی واپسی کی خبریں و اقدامات اوباما دور سے عالمی منظر پر موجود ہیں، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہنخلا ء کا فیصلہ اچانک کیا جارہا ہے، یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اپنے فروعی مفادات کے لئے افغانستان میں اپنی موجودگی کو ضروری بناتا رہا ہے، تاہم دوحہ معاہدے کے بعد اب امریکا کے پاس ایسا کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ افغانستان میں مزید مسلط رہے۔ امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکا نے افغانستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا تو افغان طالبان مختصر عرصے میں پورے افغانستان پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ اس رپورٹ نے پینٹاگون کی نیندیں اڑادی اور وہ شش و پنج کا شکار ہیں۔
امریکا بند گلی میں پھنسا ہوا ہے، اسی مشکل سے نکالنے کے لئے ایک ایسا معاہدہ عمل میں لایا جاچکا ، جس کے بعد افغانستان میں قیام امن کی ذمے داری افغان اسٹیک ہولڈرز کی ذمے داری و فرض بنتی ہے، پاکستان اپنا موقف کئی بار دوہرا چکا ہے کہ وہ انتقال اقتدار پر افغان عوام کے فیصلے کا خیر مقدم کریں گے۔ لہذا ان حالات میں کہ چار دہائیوں سے جاری جنگ میں عام عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔کابل انتظامیہ و دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کو متفقہ معاہدے پر اپنی اَنا کو پس پشت ڈال کر افغان عوام کی منشا کے مطابق کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلہ سازی کرنا ہوگی۔ عبوری حکومت کا قیام تشدد کی کمی کی جانب اہم پیش قدمی قرار پاسکتا ہے کیونکہ امریکا اب افغانستان کی جنگ سے باہر آنا چاہتا ہے اور اپنا سیاسی و سفارتی کردار اُس نئی حکومت سے بڑھانے کو ترجیح دے گا جو ایک قابل قبول افغان امن معاہدہ کی تکمیل کے بعد قائم ہوگی۔ افغانستان کے ماضی کے مقابلے میں روس، چین سے تعلقات میں بھی کافی وسعت آئی ہے اور ایران کے ساتھ مثبت تعلقات استوار ہوئے ہیں، پاکستان کے ساتھ تاریخی و ثقافتی تعلقات ہیں، لہذا امن کے اہم سنگ میل کو عبور کرنا سب کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں