یہ تیز تر موسمی تبدیلیاں اور بے خبر دنیا !————حماد اصغر علی

دنیا بھر میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے نوع انسانی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں انسانی تاریخ کافی حد تک تبدیل ہو گئی ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ خدشات اور خطرات کے باوجود ابھی تک متاثرہ ممالک کی جانب سے اس ضمن میں کو ئی جامع حکمت عملی طے نہیں ہوسکی۔
یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آ رہی ہے۔ اسی ضمن میں ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے سبب زمین کے مختلف حصوں میں آب و ہوا میں اگلے سو برسوں کے دوران سلسلہ وار تیز تر تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم کی یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او)نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث لاک ڈان کے باوجود موسمیاتی تغیر کا عمل نہیں رکا بلکہ تیزی سے جاری ہے۔ اسٹیٹ آف گلوبل کلائمیٹ 2021 ء کی عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 ء سے 2020 ء کے درمیان آنے والے 10 سال تک ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت کے اعداد و شمار کے مطابق یہ سب سے زیادہ گرم رہنے والی صدی ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ئ، سال 2019 ء اور پھر 2020 ریکارڈ درجہ حرارت رکھنے کی 170 سالہ عالمی تاریخ کے تین گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں ۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ گلوبل کلائمیٹ کی فہرست میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کے علاوہ خوارک کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس سے قبل پاکستان اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھا۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال میں ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اسے شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات ہوں گے۔ یہ صورت حال ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جن پانچ ممالک میں 2025ء تک خشک سالی کا خطرہ ہے، پاکستان ان میں شامل ہے۔دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع ہیں۔
قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر انہی تین پہاڑی سلسلوں پر ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والا پانی ملک کے وسیع رقبے کو سیراب کرتا ہے۔ بیس برس پہلے برف ان پہاڑوں کے وسیع حصے کو ڈھانپے ہوئے تھی اور اب کئی حصے برف سے بالکل خالی ہو چکے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دو دہائیوں میں (2010 سے 2030) کے دوران موسم میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق2050ء تک بنگلہ دیش اور پاکستان میں لاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔ پاکستانی ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ترک کر کے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیاں ایک ایسا چیلنج بنی ہوئی ہیں جس سے نمٹنے کیلئے تمام عالمی ماہرین موسمیات و ماحولیات سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں.،آخر وہ کیا وجوہات ہیں جس سے دنیا کا ماحول تبدیل ہو رہا ہے؟ تحقیق کے مطابق پچھلے سو برسوں میں زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں 0.85 درجہ سیلسیئس کا اضافہ ہوا ہے۔ریکارڈ شدہ برسوں میں سے 13 گرم ترین برس 21ویں صدی میں تھے، جب کہ 2015 بھی گرم ترین سالوں میں سے ایک تھا، ایسا کیوں ہو رہا ہے’سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کارخانوں اور زراعت سے ہونے والے گیسوں کے اخراج کی وجہ سے قدرتی گرین ہاؤس عمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس وقت دنیا میں گرین ہائوس گیسز کا چین میں27 فیصد، امریکا 16 فیصد، یورپ 14 فیصد، بھارت 6 فیصد جبکہ پاکستان میں صرف0.7 فیصد گرین ہائوس گیسزکا اخراج ہورہاہے۔
ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔اگر مستقبل میں زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہا تو، درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے زمین پر زندہ چیزیں معدوم ہونا شروع ہو جائیں گی۔اگر انسان گلوبل وارمنگ پر قابو پانے میں کردار ادا کرتے ہیں تو، یہ دنیا آنے والے بڑے خطرات سے بچ جائے گی۔اگر سب متحد ہو کر یکجہتی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور ہونے والی آب و ہوا میں تبدیلیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دنیا زندگی گزارنے کے لئے یقینا ا ایک پر امن اور محفوظ جگہ ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں