قاضی فائزعیسی کیس ، ججز کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی

اسلام باد (سی این پی ) جسٹس قاضی فائزعیسی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ میں شریک ججز کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی، تلخ کلامی جسٹس مقبول باقر جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر وفاقی حکومت کے وکیل کو ٹوکتے رہے جس پر ان کی جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اخترکے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے عتراض اٹھایا کہ عامر رحمان کو غیر ضروری وقت دیا جا رہا ہے۔ عامر رحمان کیلئے یا وقت مقرر کریں یا دلائل پورے کرنے دیں۔بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو میں اٹھ کر چلا جائوں گا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اٹھ کر تو میں بھی جا سکتا ہوں۔جسٹس منیب اختر نے کہا عامر رحمان سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ مقبول باقر نے کہا آپ میری بات میں مداخلت نہ کریں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا عامر رحمان دلائل کو مختصر رکھیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا میں 50 بار کہہ چکا کیس جلد ختم کریں۔ ہم دوسری سائیڈ کو بھی وقت کم ہونے کا کہہ چکے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا یہ کیا بات ہوئی کہ سینئر کا احترام نہیں۔ کسی سینئر کی بات میں مداخلت کا یہ طریقہ نہیں ہے، کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ بات ہے۔ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے عدالتی وقار کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ منیب اخترنے کہا میں سوال پوچھنا چا رہا ہوں۔ یہاں کوئی ریس تو نہیں لگی ہوئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ آپ پورا عدالتی فیصلہ پڑھنے کے بجائے متعلقہ لائن پڑھیں۔ سپریم کورٹ نے ججز کے درمیان تلخی پر سماعت کے دوران دس منٹ کا وقفہ کیا گیا اور بعد میں سماعت پھر شروع ہوئی۔ وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی توجسٹس عمرعطابندیال نے کہا جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے۔ روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لیکر آئے ہیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں۔ عامر رحمان نے کہا جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا آپکی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔وفاقی حکومت کے وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے، ایف بی آر کو ڈیڈ لائنز دینے کی وجہ بھی کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا، سرینا عیسی کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا، عدالت نے تو سرینا عیسی کے خلاف کوئی حکم جاری ہی نہیں کیا تھا، سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے، کیس ایف بی آر کو بھجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسیٰ کو سنا گیا تھا۔جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے، حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے، حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں