سیدہ طاہرہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا—–تحریر حفصہ اکبر

جب بھی ذکر مہر و وفا کیا جائے گا ، جب بھی افسانے محبت کے کنگھالے جائیں گے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی پاکیزہ ، طاہرہ سیدہ بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ذکر کیا جائے گا۔ شوہر کی اطاعت و نصرت کی اعلیٰ مثال ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا مجسمہ کامل محبت ہیں ، جن کے بارے سید الکائنات نے فرمایا ((اِنِّیْ قَدْ رُزِقْتُ حُبَّھَا))
”مجھے ان کی محبت (ربّ العالمین کی طرف سے )عطاکی گئی ہے۔“
ان کی فضیلت یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کی افضل ترین خاتون ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ( اپنے زمانے میں ) مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور ( اس امت میں ) خدیجہ ( رضی اللہ عنہا ) سب سے افضل ہیں۔“
بخاری ۳۵۱۸۔
ان کی حیات مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا نکاح تک نہ کیا کہ عشق میں دوئی کہاں ہوتی ہے۔ ان کی محبت کی معراج یہ تھی کہ سب سے لاڈلی اور خوبصورت بیوی بھی ان سے رشک کرتی۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی۔ بخاری ۳۸۱۸۔
آپ صلی اللہ علیہ السلام فرمایا کرتےقَدْ آمَنَتْ بِیْ اِذْ کَفَرَ بِیَ النَّاسُ، وَصَدَّقَتْنِیْ اِذْ کَذَّبَنِی النَّاسُ، وَوَاسَتْنِیْ بِمَالِھَا اِذْ حَرَمَنِیَ النَّاسُ، وَرَزَقَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَھَا اِذْ حَرَمَنِیْ أَوْلَادَ النِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۳۷۶)
اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر متبادل نہیں دیا، خدیجہ تو وہ تھیں جو اس وقت ایمان لائیں ، جب لوگ کفر کر رہے تھے، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی، جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے، انہوں نے اپنے مال کے ساتھ اس وقت میری ہمدردی کی، جب لوگ میرے ساتھ نہ تھے
آج آقوام عالم اسلام کو دقیانوس قرار دیتے ہیں کہ یہ مذہب عورت کو صرف چادر و چاردیواری میں قید رکھنا چاہتا ہے جبکہ انہیں ادراک ہی نہیں کہ فرسٹ لیڈی آف اسلام وومن امپاورمنٹ کی بے نظیر مثال ہیں۔ وہ اپنے دور کی ایک اکانومک پاور تھیں، ایک کامیاب آزاد، بزنس وومن اور آج جو مغرب equal right to marry and divorce and equal right to choose spouse کا نعرہ لگاتا ہے آج سے چودہ سو سال قبل خدیجہ صدیقة الکبری نے اس کا ایک precedent قائم کیا تھا۔ یہ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ جمال روئے زیبا اور صداقت و امانت سے متاثر ہو کر طاہرہ خدیجہ نے خود نکاح کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ کو بھجوایا
اوراس معاشرے کے لیے بھی اتنی امیر زادی کا سادگی سے چند رشتہ داروں کے سامنے نکاح کرنا ایک قابل تقلید مثال ہے۔
عمر میں بڑی ہونے کے باوجود نبوت و بعثت کے تاجدار بننے سے پہلے بھی اپنے شوہر کا وہ اکرام و احترام کرتیں تھیں کہ جب سردارِ حیات گھر تشریف لاتے تو مسکرا کرہاتھ تھام کر استقبال کرتیں اور دروازے سے نشست تک ہاتھ تھام کر بٹھاتیں۔ جب وحی آئی تو مونس نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی غم خواری کی اور ایسی تسلی و تشفی کا سامان کیا کہ ان کے معاملے فہم، صدق و وفا کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
بخاری کی روایت ہے کہ جب وحی آئی
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پانچ آیات کو لے کر واپس گھر تشریف لائے اور گھبراہٹ سے آپ کے مونڈھے اور گردن کا گوشت پھڑک ( حرکت کر ) رہا تھا۔ آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر فرمایا کہ مجھے چادر اوڑھا دو! مجھے چادر اوڑھا دو! چنانچہ انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی۔ جب گھبراہٹ آپ سے دور ہوئی تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا اب کیا ہو گا مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہو گیا ہے پھر آپ نے سارا واقعہ انہیں سنایا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ایسا ہرگز نہ ہو گا، آپ کو خوشخبری ہو، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں۔ آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں، ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس ( جبرائیل علیہ السلام ) ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔ کاش میں تمہاری نبوت کے زمانہ میں جوان اور طاقتور ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہ جاتا۔
نبوت کی تصدیق ہوتے ہی سب سے پہلے ایمان لے آئیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب قدرت نے بیوی کی محبت کا اور سابقہ اولی ایمان لانے والی کا وہ امتحان لیا جس نے صدیقہ کے لقب کے معنی سمجھا دیئے۔
کل تک جو لوگ آپ کے مال پر رشک کرتے تھے ان سے تجارت کرنے پر فخر کرتے تھے آج قطع تعلق ہو گئے اور ان کو اپنے شوہر کے ساتھ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں کالی راتیں اور فاقوں کے دن گزارنے پڑے، چاہتی تو بنو سعد کی پناہ مل سکتی تھی، عمر بھی ڈھل چکی تھی، دو نو مولود بیٹوں قاسم اور عبداللہ کا دکھ بھی جھیل چکی تھیں اور اب درختوں کے پتوں پر گزارا کر رہی تھیں۔
ساری دولت نصرت دین اور اعانت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ ہو چکی تھی۔ فدایان محمدیہ کو آزاد کروانے کے لیے خزانے خرچ کر چکی تھی۔ ہاتھ بھی خالی پیٹ بھی خالی مگر دامن میں صرف وہ لازوال محبت اور سچا عشق رسول بچا تھا ، جس نے نہ دن دیکھا نہ رات نہ رتبہ نہ دولت نہ شہرت ساری جمع پونجی اپنے محبوب پر وار کر لٹا دی تھی۔
جس کے صدق کو رب العالمین نے سلام عقیدت بھیجا آخر کار وہ چراغِ محبت بدست محبوب خاکِ معلی میں دس رمضان نبوت کے دسویں سال اتارا گیا۔ لاکھوں سلام آپ کی وفا پر!!!!
سلام یا افضل نساء العالمین
سلام یا افضل نساء النبیین
سلام یا من فخر اما حسن علھا
سلام یا من رزق نبی بحبھا
سلام یا زوجہ مصطفی
سلام یا مادرِ زہراء
سلام یا جدة کر بلاء

اپنا تبصرہ بھیجیں